جمعرات، 4 فروری، 2021

انتقال کے بعد میت کی منتقلی کا حکم

سوال :

کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے کہ اگر کسی کا انتقال دوسرے شہر یا دوسرے ملک میں ہوجائے تو کیا اسے اپنے مقام پر لانا جائز ہے؟ کہیں سننے میں آیا ہے کہ یہ عمل درست نہیں ہے تو پھر بعض علماء کی میت کو کیوں دوسرے شہروں میں منتقل کیا گیا؟ براہ کرم مدلل مکمل جواب عنایت فرماکر عنداللہ ماجور ہوں۔
(المستفتی : مختار احمد، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : آدمی کا جس شہر یا گاؤں میں انتقال ہو اس کی تدفین وہیں کردینا چاہیے، خواہ اس کا انتقال اسی ملک کے کسی شہر میں ہوا ہو یا ملک سے باہر کسی اور مقام پر، اس لئے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہ کرام سے یہ عمل منقول نہیں ہے۔ درج ذیل وجوہات کی بناء پر میت کی منتقلی کو فقہاء نے مکروہ قرار دیا ہے۔

1) منتقل کرنے سے تجہیز و تکفین میں تاخیر ہوتی ہے، جبکہ تجہیز و تکفین میں عجلت کرنے کا حکم ہے۔

احادیث مبارکہ میں وارد ہوا ہے :
حضرت طلحہ بن براء رضی اﷲ عنہ بیمار ہوئے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم ان کی عیادت (بیمار پرسی) کے لئے تشریف لائے، آپ نے حضرت طلحہ کی حالت دیکھ کر ارشاد فرمایا میرا گمان یہ ہے کہ ان کی موت کا وقت قریب ہے، ان کا انتقال ہوجائے تو مجھے اطلاع کرنا اور ان کی تجہیز و تکفین میں عجلت کرنا اس لئے کہ یہ مناسب نہیں ہے کہ مسلمان کی نعش اس کے گھر والوں کے درمیان روکی جائے۔ (ابوداؤد : ۹۴/۲)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا جنازہ جلدی لے چلو اگر وہ صالح ہے تو وہ خیر ہے جسے تم لے جارہے ہو اور اگر وہ صالح نہیں تو اپنی گردن پر جلدی شرکو دور کروگے۔ (بخاری، مسلم ، مشکوٰۃ شریف : ۱۴۴، باب المشی بالجنازۃ)

2) میت کے بدن میں تغیر پیدا ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے، کبھی بدبو پیدا ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے لوگوں میں میت کا احترام فوت ہوجاتا ہے۔

3) منتقل کرنے میں میت کی بے حرمتی کا بھی زیادہ امکان ہے، ضرورت سے زیادہ میت کو حرکت ہوتی ہے اور بسا اوقات لاش کو برف پر رکھا جاتا ہے جو بجائے خود میت کے لئے تکلیف کا سبب ہے اور میت کو تکلیف پہنچانا ممنوع ہے اسی بنا پر حکم ہے کہ میت کو غسل دینے کے لئے پانی اتنا گرم کیا جائے جتنا کہ وہ اپنی زندگی میں استعمال کرتا تھا بہت تیز گرم نہ ہو۔

4) میت کو منتقل کرنے میں اس کے اخراجات اور مصارف تجہیز و تکفین میں شامل نہ ہوں گے، مگر بعض اوقات یہ اخراجات میت کے ترکہ سے لئے جاتے ہیں اور کبھی ورثہ میں نابالغ بچے بھی ہوتے ہیں ان کی حق تلفی ہوتی ہے یہ ایک خود گناہ کا کام ہے۔

بلاشبہ بعض اکابر علماء کے جنازہ کو منتقل کرنے واقعات پیش آئے ہیں، لیکن ان اکابر کے معتقدین کے عمل کو حجت بنانا درست نہیں ہے جبکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کا عمل اور عبارات فقہاء بالکل واضح ہیں۔

صاحب احسن الفتاوی تحریر فرماتے ہیں :
نقل میت میں تاخیر تدفین و خطرۂ فساد میت کے علاوہ آجکل مزید مندرجہ ذیل مفاسد پیدا ہوگئے ہیں :
(١) اس کا التزام ہونے لگا۔ (۲) مصارف کثیرہ و مشقت شدیدہ کا تحمل۔ (۳) آبائی قبرستان میں دفن کرنے کے التزام اور اس پر اصرار سے یہ عقیدہ ثابت ہوتا ہے کہ ایک مقام میں دفن ہونے والے اموات کی آپس میں ملاقات ہوتی ہے حالانکہ یہ عقیدہ غلط ہے۔ (۴) جنازے کو منتقل کرنا عموماً نماز جنازہ کے تکرار کا سبب بنتا ہے جو کہ ناجائز ہے۔ (احسن الفتاوی : ۴/۲۱۸)

لہٰذا آدمی کا جہاں انتقال ہوا ہے وہیں دفن کر دینا مستحب اور افضل ہے، اور اب میت دعاء مغفرت اور ایصال ثواب کی محتاج ہے، اپنے اپنے مقام پر رہتے ہوئے سنت طریقہ کے مطابق دعاء مغفرت اور ایصال ثواب کا جتنا زیادہ اہتمام ہوسکے کرنا چاہئے اسی میں میت کا مفاد ہے، منتقل کرنے میں میت کا کچھ مفاد نہیں، مسئلہ ھذا میں عوام الناس لاپرواہی اور لاعلمی کا شکار ہیں، چنانچہ اس مسئلہ پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

البتہ شرعی مسافت تقریباً (80 کلومیٹر) سے کم فاصلے تک منتقل کرنا بلا کراہت درست ہے، اس لیے کہ حضرت سعد ابن ابی وقاص اور حضرت سعید ابن زید بن عمرو بن نفیلث، ان دونوں صحابی رسول کا انتقال وادی عقیق میں ہوا جو مدینہ المنورہ سے چار فرسخ کے فاصلہ پر ہے اورایک فرسخ میں تین میل شرعی ہوتے ہیں۔ لہٰذا تقریباً بیس کلومیٹر کے فاصلہ پر ان دونوں کا انتقال ہوا، اور دونوں کو مدینۃ المنورہ  منتقل کیا گیا، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے اس پر کسی نے نکیر بھی نہیں فرمائی۔ (فتاوی قاسمیہ : 9/638)

نوٹ : موجودہ دور میں دوسرے شہروں میں تدفین کے لیے کوئی قانونی دشواری ہو یا تدفین کے لیے افراد نہ ہوں تو اپنے شہر واپس لانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اسی طرح علاج ومعالجہ کی غرض سے کسی دوسرے شہر لے جایا جائے تو وہاں سے بھی واپس لانے میں کوئی قباحت نہیں۔

مالک عن غیر واحد ممن یثق بہ أن سعد ابن أبي وقاص و سعید بن زید بن عمرو بن نفیل توفیا بالعقیق و حملا إلی المدینۃ ودفنا بہا۔ (مؤطا إمام مالک مع أوجز المسالک، کتاب الجنائز، بحث نقل المیت، جدید دار القلم دمشق ۴؍۵۱۳، قدیم۲؍۴۷۲، مسند إمام أحمد بن حنبل ۶؍۷۹، رقم: ۲۵۰۰۳- ۲۵۰۰۴)

یندب دفنہ فی جھۃ موتہ وتعجیلہ ولا بأس بنقلہ قبل دفنہ (درمختار) شامی میں ہے (قولہ یندب دفنہ فی جھۃ موتہ) ای فی مقابر اہل المکان الذی مات فیہ او قتل وان نقل قدر میل او میلین فلا بأس شرح المنیۃ ۔ قلت ولذا صح امرہ ﷺبد فن قتلی احد فی مضاجعھم مع ان مقبرۃ المدینۃ قریبۃ ولذا دفنت الصحابۃ الذی فتحوا دمشق عند ابوابھا ولم یدفنوا کلھم فی محل واحد (قولہ لا بأس بنقلہ قبل دفنہ) قیل مطلقاً وقیل الیٰ مادون السفر وقیدہ محمد بقدر میل اومیلین لان مقابر البلد ربما بلغت ھذہ المسافۃ فیکرہ فیما زاد ، قال فی النھر عن عقد الفرائد وھوالظاہر (درمختار وشامی ج ۱ ص ۸۴۰ قبیل مطلب فی الثواب علی المصیبۃ۔)
مستفاد : فتاوی رحیمیہ)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
25 رجب المرجب 1439

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں