جمعہ، 5 فروری، 2021

رؤیت باری تعالیٰ سے متعلق چند سوالات

سوال :

محترم و مکرم مفتی صاحب!
1) کیا حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے معراج میں یا کوئی اور موقع پر اللہ رب العزت کو بلا واسطہ (بغیر پردہ) کے دیکھا ہے؟
2) زید کہتا ہے کہ سب سے پہلے اللہ تعالٰی کو حضرت آدم علیہ السلام نے دیکھا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کے جسم اطہر میں روح پھونکا تو حضرت آدم علیہ السلام کی نظر اللہ تعالٰی پر پڑی تو آپ علیہ السلام کہہ اٹھے الحمد للہ رب العالمین....
اور بکر کہتا ہے کہ آج تک کوئی مخلوق اللہ عزوجل کو نہیں دیکھا ہے۔ زید و بکر کی باتوں کی کیا حقیقت ہے قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں نوازش ہوگی۔
(المستفتی :حافظ سفیان احمد ملی، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے شبِ معراج میں دیدار باری تعالٰی سے مشرف ہونے کے سلسلہ میں علماء کرام کے مختلف اقوال ہیں۔
چنانچہ شرح عقائد اور اس کی شرح نبراس میں مذکور ہے :
’’ ثم الصحیح أنہ ﷺ إنما رأی ربہ بفؤادہ أی بقلبہ لا بعینہ اختلف السلف والخلف فیہ علی أقوال،أحدہا إنکار الرؤیۃ وہو قول عائشۃؓ والمشہور عن ابن مسعودؓ وأبی ہریرۃؓ... الخ (ص: ۲۹۵)

وقال القاضي عیاضؒ اختلف السلف والخلف ہل رأی نبینا ﷺ ربہ لیلۃ الإسراء؟ فأنکرتہ عائشۃؓ وہو المشہور عن ابن مسعود، (مرقاۃ باب الرؤیا ۳۹۴)

یعنی اس سلسلے میں چار اقوال ہیں۔

1) آپ علیہ السلام نے اللہ تعالٰی کا دیدار نہیں فرمایا۔
2) دیدار ہوا مگر قلبی۔
3) رویت بصری ہوئی۔
4) اس مسئلہ میں توقف بہتر ہے۔

حافظ ابن حجرؒ، ملاعلی قاریؒ اور صاحب شرح عقائدؒ وغیرہ نے رؤیت قلبی (دل کی آنکھوں سے دیکھنا) کو ترجیح دی ہے، اور اس کی وجہ یہ بیان فرمائی ہے کہ رؤیت قلبی مان لینے کی صورت میں تمام اقوال وروایات میں تطبیق کی شکل بآسانی پیدا ہوجاتی ہے۔

حضرت مولانا مفتی محمدشفیع صاحب ؒ نے معارف القرآن میں سورۂ نجم کی تفسیر میں اور حکیم الامت حضرت تھانویؒ نے بیان القرآن میں سورۂ اسراء کی تفسیر میں توقف کو ترجیح دی ہے، اور یہی اولی بھی ہے کیونکہ اس پر نہ تو کوئی شرعی مسئلہ موقوف ہے کہ جس کی بناء پر اثبات یا انکار ضروری ہو۔
علامہ نوویؒ نے شرح مسلم میں اور حضرت تھانویؒ نے نشرالطیب میں اور مولانا ادریس صاحبؒ نے سیرۃ المصطفیٰ میں رؤیت بصری کو ترجیح دیا ہے، رؤیت بصری کوئی امر محال بھی نہیں بلکہ ممکن ہے، البتہ دنیا میں دیدار سے مانع صرف یہ ہے کہ انسانی نگاہوں میں وہ تاب وقوت نہیں جودیدار کا تحمل کرسکیں کیونکہ دنیاوی نگاہیں فانی ہیں اور اللہ رب العزت باقی ہے۔
مسنداحمد کی اس روایت سے بھی اس کا ثبوت ملتا ہے لن ترو ربکم حتی تموتوا : ترجمہ : تم ہرگز اپنے رب کو نہیں دیکھ سکتے یہاں تک تم کو موت آجائے۔
یہ تو عام ضابطہ کی بات ہے لیکن اگر کسی کے ساتھ خصوصیت کا معاملہ کیا جائے تو اس دنیائے فانی میں دیدار سے کوئی چیز مانع نہیں، اللہ تعالی نے آپ کو جنت وجہنم کی سیر کرائی، یہ بھی تو ایک خصوصیت ہے اور اس کے علاوہ بہت سی خصوصیات سے آپ علیہ الصلاۃ والسلام کی ذات عالی متصف و مختص ہے اسی طرح دیدار الٰہی کو بھی آپ کے حق میں عام ضابطہ سے مستثنیٰ قرار دیئے جانے میں کیا حرج ہے؟ عین ممکن ہے کہ آپ کی مبارک نگاہوں میں باری تعالٰی نے وہ تاب وقوتِ دیدار پیدا کردی ہو جوتجلیات و دیدار کی متحمل ہوسکی۔

بہرحال عوام الناس کے لئے بہتر اور احوط یہی ہے کہ وہ اس طرح کے مسائل میں نہ الجھیں، اور اپنے اعمال میں لگے رہیں کہ وہ صرف اسی کے مکلف ہیں ۔

2) ترمذی شریف کی روایت میں ہے : حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جب اللہ تعالیٰ نے حضرت  آدم کو بنایا اور ان کے جسم میں روح پھونکی تو انکو چھینک آئی انہوں نے الحمدللہ کہا اس طرح انہوں نے اللہ تعالیٰ کی توفیق و اجازت سے اللہ کی حمد کی اللہ نے ان کی حمد کے جواب میں فرمایا یرحمک اللہ یعنی تم پر اللہ کی رحمت نازل ہو۔ 

متعدد تفاسیر میں حضرت آدم علیہ السلام کے جسدِ اطہر میں روح پھونکنے کا واقعہ مذکور ہے، لیکن کہیں بھی اس بات کا تذکرہ نہیں ہے کہ انھوں نے اللہ تعالیٰ کو دیکھ کر الحمد للہ رب العالمین کہا ہو، بلکہ ہر جگہ چھینک کے بعد ہی تحمید کا تذکرہ موجود ہے۔

درج بالا تفصیلات کی روشنی میں طے کرلیں کہ زید کی بات درست ہے یا بکر کی؟

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا صَفْوَانُ بْنُ عِيسَی حَدَّثَنَا الْحَارِثُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي ذُبَابٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا خَلَقَ اللَّهُ آدَمَ وَنَفَخَ فِيهِ الرُّوحَ عَطَسَ فَقَالَ الْحَمْدُ لِلَّهِ فَحَمِدَ اللَّهَ بِإِذْنِهِ فَقَالَ لَهُ رَبُّهُ يَرْحَمُکَ اللَّهُ۔(ترمذی)
مستفاد : فتاوی ریاض العلوم)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
19 ذی الحجہ 1439

1 تبصرہ: