اتوار، 7 فروری، 2021

فجر کی اذان سے پہلے یا بعد میں الصلوۃ خیر من النوم کہنا

سوال :

مفتی صاحب! ہمارے  محلے کی مسجد میں روزآنہ صبح صادق سے پہلے الصلوۃ خیر من النوم مائیک میں کہا جاتا ہے تو کیا یہ عمل درست ہے؟ اسی طرح اگر اذان کے بعد اعلان کیا جائے تو کیا حکم ہے؟
(المستفتی : حافظ شہباز، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : تہجد کے لیے یعنی صبح صادق سے پہلے اذان نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے میں شروع ہوئی تھی جو بعد میں نہیں رہی اور خلفائے راشدین  کے زمانے میں بھی نہیں تھی، جیسا کہ امام طحاوی رحمہ اللہ نے اپنی شہرہ آفاق تصنیف شرح معانی الآثار میں جلیل القدر تابعی حضرت علقمہ رحمۃ اللہ علیہ کا اثر نقل کیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ تہجد  کی اذان خلافِ سنت ہے۔ لہٰذا جب اذان نہیں رہی تو پھر تہجد کے وقت یعنی صبح صادق سے کچھ پہلے الصلوٰۃ خیرمن النوم وغیرہ لاؤڈ-اسپیکر میں پکارنے کی بھی ضرورت نہیں۔ یہ عمل سنت کے خلاف ہے، لہٰذا اس سے اجتناب کیا جائے۔

مؤذن کا لوگوں کو نماز کی طرف بلانا تثویب کی ایک قسم ہے، اور تثویب کی دوقسمیں ہیں (۱) فجر کی اذان میں ’’الصلوۃ خیر من النوم‘‘ کہنا۔ (۲) اذان واقامت کے درمیان لوگوں کو نماز کی طرف بلانے کے لیے اعلان کرنا، پہلی قسم تمام فقہاء کے نزدیک جائز ہے بلکہ فجر کی اذان کا حصہ ہے اور دوسری قسم کے بارے میں تفصیل یہ ہے کہ روایات میں فجر کی اذان واقامت کے درمیان تثویب کا استحباب منقول ہے، اور باقی نمازوں کے اوقات میں تثویب کی نفی کی گئی ہے اور عشاء اور ظہر کے اوقات میں تثویب پر حضرت علی رضی اللہ عنہ اورحضرت ابن عمررضی اللہ عنہ کی نکیربھی ثابت ہے، اور حضرت امام ابویوسفؒ نے مسلمانوں کے کاموں میں مشغولیت کی وجہ سے امراء وغیرہ کے لیے تثویب کی اجازت دی تھی، مگر اب وہ امراء نہیں رہے جیسا کہ صاحب تبیین نے فرمایاہے کہ ’’ ولیس امراء زماننا مثلہم فلایخصون بشیء ‘‘ (۹۲ / ۱) ۔ اور متاخرین فقہاء نے تمام نمازوں کے لیے تثویب کی گنجائش دی ہے مگر آج کل صورت حال یہ ہے کہ مساجد میں بلندی آواز کے لیے لاؤڈ-اسپیکر کے استعمال اور ایک ہی نماز کے لیے مختلف مساجد سے وقفے وقفے سے اذان دئیے جانے کے نتیجے میں اذان کی آواز ہر آدمی تک پہنچ جاتی ہے، چنانچہ اس صورت میں تثویب کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ لہٰذا اس سے بھی بچنا چاہیے کیونکہ یہ بات مسلّم ہے کہ جنہیں نماز کے لیے آنا ہے ان کے لیے اذان کافی ہے، اور جنہیں نہیں آنا ہے ان کے آپ کان میں بھی جاکر کہیں تو وہ نہیں آئیں گے۔ (مستفاد : ارشاد المفتین : ٣/١٣٠)

عن علي بن علي، عن إبراهيم، قال: شيعنا علقمة إلى مكة، فخرج بليل فسمع مؤذنًا يؤذن بليل فقال : «أما هذا فقد خالف سنة أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم، لو كان نائمًا كان خيرًا له فإذا طلع الفجر، أذن»فأخبر علقمة أن التأذين قبل طلوع الفجر، خلاف لسنة أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم۔ (شرح معاني الآثار : ١/١٤١)

فانہ روی ان بلالا رضی اللہ عنہ اتی النبی علیہ الصلوۃ والسلام یؤذنہ بالصلوۃ فوجدہ راقدا فقال الصلوۃ خیرمن النوم فانتبہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم وقال مااحسن ہذایابلال اجعلہ فی اذانک۔ (المحیط البرہانی : ۹۲/۲)

ولاتثویب الافی صلوۃ الفجر عندناوالاصل فیہ قولہ علیہ الصلوۃ والسلام لبلال رضی اللہ عنہ ثوب فی الفجر ولاتثویب فی غیرہا والمعنی فی المسئلۃ
ان وقت الفجر وقت نوم وغفلۃ فاستحبوا زیادۃ الاعلام للتنبیہ فیدرکون فضیلۃ الصلوۃ بالجماعۃ امااوقات سائر الصلوات فاوقات انتباہ ولاحاجۃ الی التثویب فیہا۔ (المحیط البرہانی : ۹۱/۲)

وہوفی الفجر خاصۃ وکرہ فی غیرالفجر من الصلوات الافی قول ابی یوسف فی حق امراء زمانہ خصہم بذلک لاشتغالہم بامورالمسلمین ولیس امراء زماننامثلہم فلایخصون بشیء۔ (تبیین الحقائق : ۹۲/۱)

ولاتثویب الافی صلوۃ الفجر لماروی ان علیا رضی اللہ عنہ راٰی مؤذنا یثوب فی العشاء فقال اخرجوا ہذا المبتدع من المسجد والحدیث مجاہد رضی اللہ عنہ قال دخلت مع ابن عمر رضی اللہ عنہما مسجدانصلی فیہ الظہر فسمع المؤذن یثوب فغضب وقال قم حتی نخرج من عند ہذا المبتدع۔ (المبسوط : ۲۷۴/۱)

(قولہ ویثوب ) ای المؤذن والتثویب العود الی الاعلام بعد الاعلام ومنہ الثیب لان مثیبہا عائد الیہا والثواب لان منفعۃ عملہ تعود الیہ والمثابۃ لان الناس یعودون الیہ ووقتہ بعد الاذان علی الصحیح کماذکرہ قاضی خان وفسرہ فی روایۃ الحسن بان یمکث بعد الاذان قدر عشرین آیۃ …فالاول الصلاۃ خیر من النوم وکان بعد الاذان الا ان علماء الکوفۃ الحقوہ بالاذان والثانی احدثہ علماء الکوفۃ بین الاذان والاقامۃ حی علی الصلوۃ مرتین حی علی الفلاح مرتین واطلق فی التثویب فافاد انہ لیس لفظ یخصہ بل تثویب  کل بلد علی ماتعارفوہ اما بالتنحنح او بقولہ الصلاۃ الصلاۃ اوقامت قامت لانہ للمبالغۃ فی الاعلام وانما یحصل بماتعارفوہ… وافا دانہ لا یخص صلا ۃ بل ہو فی سائر الصلوات وہواختیار المتاخرین لزیادۃ غفلۃ الناس وقلما یقومون عندسماع الاذان وعندالمتقدمین ہومکروہ فی غیر الفجر وہوقول الجمہور کماحکاہ النووی فی شرح المھذب الخ۔ (البحرالرائق : ۱/۴۵۳)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
24 جمادی الآخر 1442

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں