جمعرات، 18 فروری، 2021

تعلیقِ طلاق کی ایک صورت

سوال :

حضرت مفتی صاحب دریافت یہ کرنا ہے کہ ایک صاحب نے اپنی بیوی سے کہا کہ اگر تم اپنے میکے یا اپنی بہن کے گھر گئی تو تجھے طلاق، لیکن کچھ دنوں کے بعد وہ خود اپنی بیوی کو لے کر وہاں گیا تو کیا اس عورت پر طلاق واقع ہوجائے گی یا نہیں، اگر طلاق واقع ہوگی تو کتنی ؟ جواب عنایت فرمائیں اور عنداللہ ماجور ہوں۔
(المستفتی : عابد حسین، محبوب نگر، تلنگانہ)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : صورتِ مسئولہ میں شوہر اگر یہ کہے کہ اس کی نیت بیوی کے اکیلے میکہ یا بہن کے گھر جانے پر طلاق کی تھی تو کوئی طلاق نہیں ہوگی، کیونکہ جب وہ خود اسے لے کر جارہا ہے تو بیوی کا اکیلے جانا نہیں پایا گیا۔ اور اس نیت میں چونکہ الفاظ بھی اس کا بہت حد تک ساتھ دے رہے ہیں، اس لیے طلاق واقع نہ ہونے کا حکم لگے گا۔ لیکن اگر وہ یہ کہے کہ میں نے اس کے کسی کے بھی ساتھ جانے پر طلاق کی نیت کی تھی تو پھر ایک طلاقِ رجعی واقع ہوگی۔ لہٰذا عدت کی مدت میں شوہر دو گواہوں کی موجودگی میں کہہ دے کہ میں رجوع کرتا ہوں یا تنہائی میں میاں بیوی والا عمل کرلے تو رجوع ہوجائے گا اور دونوں دوبارہ ازدواجی رشتہ میں منسلک ہوں گے۔

الْأَيْمَانُ مَبْنِيَّةٌ عَلَى الْأَلْفَاظِ لَا عَلَى الْأَغْرَاضِ فَلَوْ حَلَفَ أَنْ لَا يَشْتَرِيَ لَهُ شَيْئًا بِفَلْسٍ فَاشْتَرَى لَهُ بِدِرْهَمٍ لَمْ يَحْنَثْ۔ (الدر المختار مع الشامي : ٣/٧٤٣)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
05 رجب المرجب 1442

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں