بدھ، 24 فروری، 2021

والدین کی آپس میں بات چیت بند ہوتو بچے کیا کریں؟

سوال :

مفتی صاحب ایک مسئلہ درپیش ہے کہ ایک شخص ہے جس کے والدین کی آپس میں بات چیت بند ہے، والد کچھ کرنے کہتے ہیں تو والدہ اس کے برعکس کہتی ہیں، جس کی وجہ سے بچے پریشان ہیں کہ آیا والد کے بات مانیں یا والدہ کی؟ والد کی بات مانیں تو والدہ ناراض ہوگی اور والدہ کی بات مانیں تو والد ناراض ہوں گے۔ براہ کرم تسلی بخش جواب دے کر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں۔
(المستفتی : محمد ابوذر، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : صورتِ مسئولہ میں جبکہ بچے سمجھدار ہیں تو انہیں چاہیے کہ وہ سب سے پہلے والدین میں صلح صفائی کی کوشش کریں، والدین ان کے رشتہ داروں اور تعلقات میں جن کی بات مانتے ہوں ان کے ذریعے دونوں میں مصالحت کی جائے۔ اس لئے کہ کسی مسلمان سے قطع تعلق کرنا ناجائز اور گناہ کی بات ہے، احادیث مبارکہ میں اس پر سخت وعید وارد ہوئی ہے۔

حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کسی مسلمان کے لئے حلال نہیں ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی سے تین دن سے زیادہ ترک تعلق کرے، لہٰذا جو شخص تین دن سے زیادہ خواہ ایک ساعت ہی کیوں نہ ملنا جلنا چھوڑ دے اور پھر وہ اسی حالت میں توبہ کئے بغیر مرجائے تو آگ میں جائے گا۔ (1)

امید ہے کہ اللہ تعالی اسی مرحلہ میں مسئلہ ختم فرمادیں اور آگے کے مراحل کے حل کی ضرورت ہی نہ پیش نہ آئے۔

لیکن اگر خدانخواستہ تمام تر مصالحتی کوششوں کے باوجود والدین میں بات چیت شروع نہ ہوسکے تو بچوں کے لیے ضروری ہے کہ والدین میں سے پہلے جس نے کوئی حکم دیا ہو اس کی اطاعت و فرمانبرداری کریں۔

مثلاً اگر والدہ نے کہا کہ فلاں کام کرو، اور والد صاحب کو معلوم ہوا اور انھوں نے اس کام سے منع کردیا تو اس صورت میں والدہ کے حکم کی ہی تابعداری کی جائے گی، کیونکہ والد کا حکم ماننے میں والدہ کی نافرمانی ہوگی، جو کہ گناہ ہے، اور شریعتِ مطہرہ نے گناہ کے کاموں میں کسی کی بھی اطاعت سے منع فرمایا ہے اگرچہ حکم دینے والے حاکمِ وقت یا والدین ہی کیوں نہ ہوں۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ کی نافرمانی میں کسی انسان کی اطاعت جائز نہیں ہے۔ (2)

نیز آپ ﷺ نے فرمایا اللہ کی نافرمانی میں کسی کی اطاعت نہیں ہے، اطاعت تو صرف معروف میں ہے۔ (3)

اسی طرح اس کے برعکس کیا جائے گا کہ اگر والد نے کوئی حکم دیا اور والدہ نے منع کردیا تو والد کے حکم کی اطاعت کی جائے گی، اس صورت میں بچے گناہ گار نہیں ہوں گے۔

1) عن ابی ہریرۃ ان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال لایحل لمسلم ان یہجر اخاہ فوق ثلٰث فمن ہجر فوق ثلاث فمات دخل النار،رواہ احمد، ابوداؤد، مشکوٰۃ شریف ص۴۲۸؍(مطبوعہ یاسرندیم اینڈ کمپنی دیوبند)
 
2) عن علي، عن النبي صلى اللہ عليه وسلم، قال: " لا طاعة لمخلوق في معصية اللہ عز وجل.(مسند الإمام أحمد بن حنبل:۲؍۳۳۳، رقم الحدیث:۱۰۹۵، مسند علي بن أبي طالب رضي اللہ عنه)

3)لا طاعۃ في معصیۃ اللہ إنما الطاعۃ في المعروف۔ (مسلم شریف کتاب الجہاد والسیر، باب وجوب طاعۃ الأمراء في غیر معصیۃ، النسخۃ الہندیۃ ۲/ ۱۲۵، بیت الأفکار، رقم: ۱۸۴۰)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
11 رجب المرجب 1442

3 تبصرے:

  1. مولانا صاحب ۔۔

    گالی دینے کا کیا گناہ ہے ؟

    اس کی وعیدیں قرآن و حدیث کی روشنی میں بتایں ۔
    نوازش ہو گی _

    جواب دیںحذف کریں
  2. ماشاءاللہ مفتی صاحب بہت خوب
    بڑا اچھا جواب دیا سوچ سمجھ کر اللہ دارین خوب جزائے خیر عطا فرمائے آمین

    جواب دیںحذف کریں