اتوار، 11 جون، 2023

72 حوروں کی حقیقت؟

سوال :

محترم مفتی صاحب ! ایک عالم صاحب نے ایک تحریر لکھی ہے جس میں انہوں نے لکھا ہے کہ کسی بھی صحیح حدیث میں اس بات کا تذکرہ نہیں ہے کہ جنت میں 72 حوریں ملیں گی۔ کیا یہ بات صحیح ہے؟ مدلل رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : محمد عابد، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : جنت راحت وآرام کی سب سے اعلی جگہ ہے، جہاں ہر طرح کا راحت وآرام ہوگا، اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ مرد کے راحت وآرام اور قلبی سکون کا ایک اہم ذریعہ عورت بھی ہے جیسا کہ خود اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا ہے :
وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِنْ أَنْفُسِكُمْ أَزْوَاجًا لِتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَوَدَّةً وَرَحْمَةً إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ۔
ترجمہ : اور اس کی ایک نشانی یہ ہے کہ اس نے تمہارے لیے تم میں سے بیویاں پیدا کیں، تاکہ تم ان کے پاس جاکر سکون حاصل کرو، اور تمہارے درمیان محبت اور رحمت کے جذبات رکھ دیئے، یقیناً اس میں ان لوگوں کے لیے بڑی نشانیاں ہیں جو غوروفکر سے کام لیتے ہیں۔ (سورہ روم، آیت : ٢١)

لہٰذا عین ممکن ہے بلکہ جنت کے شایان شان ہے کہ وہاں جنتی مرد کے لیے ایک سے زائد یہاں تک کہ پچاسوں کی تعداد میں اس کی بیویاں یعنی حوریں ہوں جو اس کی دلجوئی اور سکون کا سبب بنے۔ اور یہ بات صرف گمان کی حد تک نہیں ہے بلکہ یقینی بات ہے کیونکہ متعدد احادیث مبارکہ میں صراحتاً اسے بیان کیا گیا ہے۔

جامع ترمذی میں ہے :
حضرت مقدام بن معدیکرب ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کے ہاں شہید کے لئے چھ انعامات ہیں۔ خون کا پہلا قطرہ گرتے ہی اس کی بخشش ہو جاتی ہے۔ جنت میں اپنا ٹھکانہ دیکھ لیتا ہے۔ عذاب قبر سے محفوظ اور قیامت کے دن کی بھیانک وحشت سے مامون کر دیا جاتا ہے۔ اس کے سر پر ایسے یاقوت سے جڑا ہوا وقار کا تاج رکھا جاتا ہے جو دنیا اور جو کچھ اس میں ہے سے بہتر ہے۔ اور اس کی بڑی آنکھوں والی بہتّر حوروں سے شادی کر دی جاتی ہے اور ستّر رشتہ داروں کے معاملہ میں اس کی سفارش قبول کی جاتی ہے۔ (١)

مسند احمد ابن حنبل میں ہے :
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : اہل جنت میں سب سے کم درجے کے جنتی کے لئے سات درجے ہوں گے جن میں سے چھٹے پر وہ خود ہوگا اور اس کے اوپر سا تواں درجہ ہوگا اس کے پاس تین سو خادم ہوں گے ہر روز صبح و شام اس کے سامنے تین سو ڈشیں پیش کی جائیں گی ہر ڈش کا رنگ دوسری سے مختلف ہوگا اور وہ پہلی اور آخری ڈش سے یکساں لذت اندوز ہوگا (اسی طرح مشروبات کے تین سو برتن ہوں ہربرتن کا رنگ دوسرے سے جدا ہوگا اور وہ پہلے اور آخری برتن سے یکساں لطف اندوز ہوگا) اور وہ عرض کرے گا کہ پروردگار! اگر تو مجھے اجازت دے تو میں تمام اہل جنت کی دعوت کروں اور اس میں میرے پاس جتنی چیزیں موجود ہیں کسی کی کمی محسوس نہ ہو اور اسے دنیوی بیویوں کے علاوہ 72 حورعین دی جائیں گی جن میں سے ہر ایک کی رہائش زمین کے ایک میل کے برابر ہوگی۔ (٢)

جامع ترمذی میں ہے :
حضرت ابوسعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ادنیٰ جنتی وہ ہے جس کے اسی ہزار خادم اور بہتّر بیویاں ہوں گی۔ اس کے لئے موتی، یاقوت اور زمرد سے اتنا بڑا خیمہ نصب کیا جائے گا جتنا کہ صنعاء اور جابیہ کے درمیان فاصلہ ہے۔ (٣)

درج بالا روایات میں پہلی روایت صحیح درجہ کی ہے، جس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ بقیہ دو روایات میں اگرچہ کچھ ضعف ہے، لیکن فضائل میں ایسی روایات قابل قبول ہوتی ہیں، لہٰذا اس کی نسبت نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف کرنا اور ایسا سمجھنا کہ جنتیوں کو ستر سے زائد حوریں ملیں گی اور اس کا بیان کرنا سب جائز اور درست ہے۔

اسی طرح جب دنیا میں مالداروں اور بادشاہوں بلکہ عام لوگوں نے بھی ایک سے زائد عورتوں کو اپنے نکاح میں رکھا ہے تو پھر جنت میں یہ کیونکر ممکن نہ ہوگا؟ اور یہ کیسی عجیب بات ہے کہ دنیا میں تو بندے کو چار بیویوں کی اجازت ہو اور جنت میں دو ہی ملے، جبکہ دنیا اور جنت کا تو کوئی مقابلہ ہی نہیں۔ لہٰذا سوال نامہ میں مذکور عالم صاحب کی تحریر عقلی اور نقلی دونوں اعتبار سے درست نہیں ہے۔ ان سے سخت غلطی ہوئی ہے جس پر انہیں فوراً رجوع کرنا چاہیے۔

١) عَنْ الْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِي کَرِبَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلشَّهِيدِ عِنْدَ اللَّهِ سِتُّ خِصَالٍ يُغْفَرُ لَهُ فِي أَوَّلِ دَفْعَةٍ وَيَرَی مَقْعَدَهُ مِنْ الْجَنَّةِ وَيُجَارُ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ وَيَأْمَنُ مِنْ الْفَزَعِ الْأَکْبَرِ وَيُوضَعُ عَلَی رَأْسِهِ تَاجُ الْوَقَارِ الْيَاقُوتَةُ مِنْهَا خَيْرٌ مِنْ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا وَيُزَوَّجُ اثْنَتَيْنِ وَسَبْعِينَ زَوْجَةً مِنْ الْحُورِ الْعِينِ وَيُشَفَّعُ فِي سَبْعِينَ مِنْ أَقَارِبِهِ۔ (سنن الترمذی، رقم : ١٦٦٣)

٢) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ أَدْنَى أَهْلِ الْجَنَّةِ مَنْزِلَةً إِنَّ لَهُ لَسَبْعَ دَرَجَاتٍ وَهُوَ عَلَى السَّادِسَةِ وَفَوْقَهُ السَّابِعَةُ وَإِنَّ لَهُ لَثَلَاثَ مِائَةِ خَادِمٍ وَيُغْدَى عَلَيْهِ وَيُرَاحُ كُلَّ يَوْمٍ ثَلَاثُ مِائَةِ صَحْفَةٍ وَلَا أَعْلَمُهُ إِلَّا قَالَ مِنْ ذَهَبٍ فِي كُلِّ صَحْفَةٍ لَوْنٌ لَيْسَ فِي الْأُخْرَى وَإِنَّهُ لَيَلَذُّ أَوَّلَهُ كَمَا يَلَذُّ آخِرَهُ وَإِنَّهُ لَيَقُولُ يَا رَبِّ لَوْ أَذِنْتَ لِي لَأَطْعَمْتُ أَهْلَ الْجَنَّةِ وَسَقَيْتُهُمْ لَمْ يَنْقُصْ مِمَّا عِنْدِي شَيْءٌ وَإِنَّ لَهُ مِنْ الْحُورِ الْعِينِ لَاثْنَيْنِ وَسَبْعِينَ زَوْجَةً سِوَى أَزْوَاجِهِ مِنْ الدُّنْيَا وَإِنَّ الْوَاحِدَةَ مِنْهُنَّ لَيَأْخُذُ مَقْعَدُهَا قَدْرَ مِيلٍ مِنْ الْأَرْضِ۔ (مسند احمد، رقم : ١٠٩٣٢)

٣) عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَدْنَى أَهْلِ الْجَنَّةِ الَّذِي لَهُ ثَمَانُونَ أَلْفَ خَادِمٍ وَاثْنَتَانِ وَسَبْعُونَ زَوْجَةً وَتُنْصَبُ لَهُ قُبَّةٌ مِنْ لُؤْلُؤٍ وَزَبَرْجَدٍ وَيَاقُوتٍ كَمَا بَيْنَ الْجَابِيَةِ إِلَى صَنْعَاءَ۔ (سنن الترمذی، رقم : ٢٥٦٢)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
21 ذی القعدہ 1444

3 تبصرے:

  1. بے لاگ،لپیٹ۔۔۔نہ ستائش کی تمنّا نہ گلے کی پرواہ۔۔۔۔کسی کو بُرا لگے یا اچھّا۔۔۔کسی کو خجالت محسوس ھو تو ھوا کرے۔۔۔جو سچ ھے وہ پیش ھے۔۔۔ماشاء اللّٰہ

    جواب دیںحذف کریں