پیر، 5 جون، 2023

حضرت اویس قرنی کے اپنے دانت توڑنے والے واقعہ کی تحقیق


سوال :

محترم مفتی صاحب ! حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دندانِ مبارک جنگ احد میں شہید ہوئے تھے جس کی خبر سن کر حضرت اویس قرنی نے اپنے مکمل دانت توڑ ڈالے کہ میرے دانت ہوں اور میرے آقا کے دانت نہ ہوں۔ کیا یہ واقعہ ثابت ہے؟ آپ سے اس واقعہ کی تحقیق مطلوب ہے۔
(المستفتی : رفیق احمد، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : حضرت اویس قرنی رحمۃ اللہ علیہ بڑے جلیل القدر تابعی ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو خیر التابعین کا لقب عطا فرمایا ہے، اور صحیح احادیث میں آتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا کہ اویس قرنی جب یمن سے تشریف لائیں اور تمہاری ان سے ملاقات ہو تو ان سے مغفرت کی دعا کرانا۔ چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان سے ملاقات کی کوشش میں رہے اور پھر ایک موقع پر حضرت اویس قرنی یمن کے ایک قافلہ کے ساتھ تشریف لائے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے ملاقات کرکے دعائے مغفرت کی درخواست کی۔

البتہ سوال نامہ میں مذکور دانت توڑنے والا واقعہ بے اصل ہے، اور یہ شرعی حکم کے بھی خلاف ہے، کیونکہ کسی بھی شخص کو اپنا کوئی عضو بلاوجہ ضائع کرنے کا اختیار نہیں ہے۔

ملا علی قاری رحمہ اللہ نے لکھا ہے :
اعلم أن ما اشتهر على ألسنة العامة من أن أويساً قلع جميع أسنانه لشدة أحزانه حين سمع أن سنّ النبي صلى الله عليه وسلم أصيب يوم أحد ولم يعرف خصوص أي سن كان بوجه معتمد، فلا أصلَ له عند العلماء مع أنه مخالف للشريعة الغراء، ولذا لم يفعله أحد من الصحابة الكبراء على أن فعله هذا عبث لايصدر إلا عن السفهاء"۔ (المعدن العدني في فضل أويس القرني : ٤٠٣)

ترجمہ : جان لو کہ لوگوں کی جانب سے جو مشہور کیا جاتا ہے کہ اویسِ قرنی نے اپنے تمام دانت توڑ دیئے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے دندان کے ٹوٹنے کے غم میں، کیوں کہ انہیں متعین طور پر معلوم نہیں تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا کون سا دانت ٹوٹا ہے؟ (تو سارے توڑ دیئے)۔ علماء کے نزدیک اس بات کی کوئی بنیاد نہیں، اور یہ خلافِ شریعت ہے۔ کیونکہ بڑے بڑے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے (جو اعلیٰ درجے کے عاشق تھے) کسی نے بھی ایسا نہ کیا، کیوں کہ یہ ایک عبث فعل ہے اور نادان لوگوں سے ہی صادر ہوسکتا ہے۔

درج بالا تفصیلات سے بالکل واضح طور پر معلوم ہوگیا کہ یہ واقعہ بے بنیاد اور من گھڑت ہے، لہٰذا اس کا بیان کرنا جائز نہیں ہے۔

عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ قَالَ إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِنَّ خَيْرَ التَّابِعِينَ رَجُلٌ يُقَالُ لَهُ أُوَيْسٌ وَلَهُ وَالِدَةٌ وَکَانَ بِهِ بَيَاضٌ فَمُرُوهُ فَلْيَسْتَغْفِرْ لَکُمْ۔

عَنْ أُسَيْرِ بْنِ جَابِرٍ ، قَالَ : كَانَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ إِذَا أَتَى عَلَيْهِ أَمْدَادُ أَهْلِ الْيَمَنِ سَأَلَهُمْ : أَفِيكُمْ أُوَيْسُ بْنُ عَامِرٍ ؟ حَتَّى أَتَى عَلَى أُوَيْسٍ، فَقَالَ : أَنْتَ أُوَيْسُ بْنُ عَامِرٍ ؟ قَالَ : نَعَمْ. قَالَ : مِنْ مُرَادٍ، ثُمَّ مِنْ قَرَنٍ ؟ قَالَ : نَعَمْ. قَالَ : فَكَانَ بِكَ بَرَصٌ، فَبَرَأْتَ مِنْهُ إِلَّا مَوْضِعَ دِرْهَمٍ ؟ قَالَ : نَعَمْ. قَالَ : لَكَ وَالِدَةٌ ؟ قَالَ : نَعَمْ. قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ : " يَأْتِي عَلَيْكُمْ أُوَيْسُ بْنُ عَامِرٍ مَعَ أَمْدَادِ أَهْلِ الْيَمَنِ، مِنْ مُرَادٍ ثُمَّ مِنْ قَرَنٍ، كَانَ بِهِ بَرَصٌ فَبَرَأَ مِنْهُ إِلَّا مَوْضِعَ دِرْهَمٍ، لَهُ وَالِدَةٌ، هُوَ بِهَا بَرٌّ، لَوْ أَقْسَمَ عَلَى اللَّهِ لَأَبَرَّهُ، فَإِنِ اسْتَطَعْتَ أَنْ يَسْتَغْفِرَ لَكَ فَافْعَلْ ". فَاسْتَغْفِرْ لِي. فَاسْتَغْفَرَ لَهُ۔ (صحیح المسلم، رقم : ٢٥٤٢)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
15 ذی القعدہ 1444

1 تبصرہ: