بدھ، 15 نومبر، 2023

مضاربت اور مشارکت کے کاروبار کی شرعی حیثیت


سوال :

امید کہ مزاج خیر وعافیت سے ہوں گے۔
زید اور بکر پاٹنری میں تجارت کرنا چاہتے ہیں لیکن شرط یہ ہے کہ زید صرف رقم خرچ کرے گا اور بکر محنت کرے گا اور نفع و نقصان میں شریک ہو۔ دوسرا یہ کہ رقم دونوں ہی خرچ کریں نفع ونقصان میں دونوں بھی شریک رہیں لیکن محنت صرف ایک فرد کرے۔ کیا اس طرح ان دونوں کا یہ تجارت کرنا جائز ہے یا نہیں؟ برائے مہربانی قرآن مجید وحدیث پاک کی روشنی میں جواب دیجئے۔
(المستفتی : حافظ سید مستقیم، جنتور)
--------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : سوال نامہ میں مذکور پہلی صورت جس میں ایک جانب سے سرمایہ اور دوسری جانب سے محنت ہے اور پھر جو نفع ہو اسے باہمی رضا مندی سے آپس میں تقسیمِ کرلیا جائے اسے شریعت کی اصطلاح میں مضاربت کہا جاتا ہے۔ اور حدیث شریف میں اس طرح کاروبار کرنے کو باعثِ برکت بتایا گیا ہے بشرطیکہ کاروبار کرنے والے ایمانداری سے کام کریں۔

حضرت صہیب فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : تین چیزوں میں برکت ہے مدت معینہ تک ادھار پر فروخت کرنا، مضاربت کرنا اور گندم جو میں ملانا گھر میں استعمال کے لئے نہ کہ فروخت کیلئے۔ (ابن ماجہ)

اس طرح کاروبار کرنے میں سرمایہ لگانے والے کو ربُّ المال اور محنت کرنے والے کو مُضارِب کہتے ہیں۔ اس میں درج ذیل چند شرائط کا ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔

١) مضاربت میں سرمایہ کا نقدی ہونا ضروری ہے، اگر سرمایہ سامان، قرض یا جامد اثاثوں کی شکل میں ہوگا تو مضاربت صحیح نہیں ہوگی۔

٢) عقدِ مضاربت میں سرمایہ مکمل طور پر مضارب کے حوالہ کرنا ضروری ہے، اس طور پر کہ پھر اس سرمایہ میں رب المال کا کسی قسم کا کوئی عمل دخل نہ رہے، اسی طرح رب المال (رقم لگانے والا) کوئی کام بھی نہیں کرے گا، بلکہ کام صرف مضارب ہی کرے گا، اگر رب المال پر بھی کام کی شرط  لگائی گئی تو مضاربت فاسد ہو جائے گی۔ ہاں اگر بغیر شرط کے رب المال کوئی کام کردے تو حرج نہیں۔

٣) عقدِ مضاربت میں منافع کی تقسیم حقیقی نفع کے تناسب سے طے کی جانی ضروری ہے، مثلاً ہر ہفتے یا مہینے یا پھر سال پورا ہونے پر حساب کیا جائے، اور جو نفع ہو اسے باہمی رضا مندی سے آپس میں تقسیم کرلیا جائے، لیکن یہ پہلے ہی طے کرلیا جائے کہ رب المال کا کتنا فیصد ہوگا؟ اور مضارب کا کتنا فیصد رہے گا؟ اور جب تک معاملہ ختم نہ ہو تب تک متعینہ فیصد کے مطابق نفع تقسیم ہوتا رہے گا۔ اگر کسی ایک کے لیے متعین رقم یا سرمایہ کے تناسب سے پہلے سے نفع طے کرلیا (یعنی کل سرمایہ کا اتنا فیصد ملے گا) مثلاً ایک لاکھ کاروبار میں لگانے کی صورت میں اس کا تین فیصد (تین ہزار) ہر ماہ نفع میں دیا جائے گا تو ایسا کرنا جائز نہ ہوگا۔

٤) اگر نقصان ہوگیا تو اس کو پہلے حاصل شدہ نفع سے پورا کیا جائے گا، اگر اس سے بڑھ گیا تو وہ رب المال کے ذمہ ہوگا اور اصل سرمایہ سے پورا کیا جائے گا، مضارب کو نقصان کا ذمہ دار ٹھہرانا جائز نہیں، بلکہ نقصان کی صورت میں سرمایہ کار نقصان برداشت کرے گا اور مضارب کی محنت رائیگاں جائے  گی، مضارب امین کی حیثیت سے کام کرے گا۔

سوال نامہ میں جو دوسری صورت بیان کی گئی ہے اسے مشارکت کہتے ہیں، یہ دونوں ہی اشتراک کے ساتھ کاروبار کی صورتیں ہیں، فرق یہ ہے کہ مضاربت میں ایک شخص کا صرف سرمایہ ہوتا ہے اور دوسرے شخص کی طرف سے صرف محنت اور نفع میں دونوں شریک ہوتے ہیں۔ مشارکت (جس کو اصل میں فقہاء "شرکت" سے تعبیر کرتے ہیں) میں دونوں افراد کا مال یا دونوں کی محنت شامل ہوتی ہے اور نفع میں بھی دونوں شریک ہوتے ہیں۔ یہ دونوں ہی صورتیں شریعت میں جائز ہیں۔

مشارکت کے معاملے میں بھی نفع و نقصان کی تقسیم فی صدی کے اعتبار سے باہمی رضامندی سے طے کی جائے، مثلاً جو بھی نفع ہوگا اس کا 40 فیصد ایک پارٹنر لے گا اور دوسرا 60 فیصد لے گا، متعین نفع مقرر کرکے شراکت داری کرنا شرعاً ناجائز ہے۔ اور اگر خدانخواستہ نقصان ہوگیا تو اولاً نفع سے خسارہ پورا کیا جائے گا، اگر خسارہ میں مکمل نفع ختم ہوجائے تو پھر شرکاء کے حصوں کے اعتبار سے سرمایہ سے وہ خسارہ پورا کیا جائے گا۔ یعنی جس طرح نفع میں فیصد کے اعتبار سے شرکت تھی اسی اعتبار سے نقصان میں بھی شرکت ہوگی۔

دونوں معاملات میں سب سے اہم اور بنیادی شرط یہی ہے کہ جس کی چیز کی تجارت کی جائے یا جس کاروبار میں رقم لگائی جائے وہ شرعاً جائز بھی ہو۔ درج بالا شرائط کو ملحوظ رکھتے ہوئے زید اور بکر پارٹنر شپ میں کاروبار کرسکتے ہیں۔

عَنْ صَالِحِ بْنِ صُهَيْبٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثٌ فِيهِنَّ الْبَرَکَةُ الْبَيْعُ إِلَی أَجَلٍ وَالْمُقَارَضَةُ وَأَخْلَاطُ الْبُرِّ بِالشَّعِيرِ لِلْبَيْتِ لَا لِلْبَيْعِ۔ (ابن ماجہ، رقم : ٢٢٨٩)

مِنْهُمَا وَكِيلَ صَاحِبِهِ فِي التَّصَرُّفِ بِالشِّرَاءِ وَالْبَيْعِ وَتَقَبُّلِ الْأَعْمَالِ؛ لِأَنَّ كُلَّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا أَذِنَ لِصَاحِبِهِ بِالشِّرَاءِ وَالْبَيْعِ، وَتَقَبُّلُ الْأَعْمَالِ مُقْتَضَى عَقْدِ الشَّرِكَةِ وَالْوَكِيلُ هُوَ الْمُتَصَرِّفُ عَنْ إذْنٍ فَيُشْتَرَطُ فِيهَا أَهْلِيَّةُ الْوَكَالَةِ لِمَا عُلِمَ فِي كِتَابِ الْوَكَالَةِ.

(وَمِنْهَا) : أَنْ يَكُونَ الرِّبْحُ مَعْلُومَ الْقَدْرِ، فَإِنْ كَانَ مَجْهُولًا تَفْسُدُ الشَّرِكَةُ؛ لِأَنَّ الرِّبْحَ هُوَ الْمَعْقُودُ عَلَيْهِ، وَجَهَالَتُهُ تُوجِبُ فَسَادَ الْعَقْدِ كَمَا فِي الْبَيْعِ وَالْإِجَارَةِ.

(وَمِنْهَا) : أَنْ يَكُونَ الرِّبْحُ جُزْءًا شَائِعًا فِي الْجُمْلَةِ، لَا مُعَيَّنًا، فَإِنْ عَيَّنَا عَشَرَةً، أَوْ مِائَةً، أَوْ نَحْوَ ذَلِكَ كَانَتْ الشَّرِكَةُ فَاسِدَةً؛ لِأَنَّ الْعَقْدَ يَقْتَضِي تَحَقُّقَ الشَّرِكَةِ فِي الرِّبْحِ وَالتَّعْيِينُ يَقْطَعُ الشَّرِكَةَ لِجَوَازِ أَنْ لَا يَحْصُلَ مِنْ الرِّبْحِ إلَّا الْقَدْرُ الْمُعَيَّنُ لِأَحَدِهِمَا، فَلَا يَتَحَقَّقُ الشَّرِكَةُ فِي الرِّبْحِ۔ (بدائع الصنائع : ٦/٥٩)

أَمَّا تَفْسِيرُهَا شَرْعًا فَهِيَ عِبَارَةٌ عَنْ عَقْدٍ عَلَى الشَّرِكَةِ فِي الرِّبْحِ بِمَالٍ مِنْ أَحَدِ الْجَانِبَيْنِ وَالْعَمَلِ مِنْ الْجَانِبِ الْآخَرِ .... وَأَمَّا شَرَائِطُهَا الصَّحِيحَةُ فَكَثِيرَةٌ كَذَا فِي النِّهَايَةِ. (مِنْهَا) أَنْ يَكُونَرَأْسُ الْمَالِ دَرَاهِمَ أَوْ دَنَانِيرَ عِنْدَ أَبِي حَنِيفَةَ وَأَبِي يُوسُفَ رَحِمَهُمَا اللَّهُ تَعَالَى وَعِنْدَ مُحَمَّدٍ - رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى - أَوْ فُلُوسًا رَائِجَةً حَتَّى إذَا كَانَ رَأْسُ مَالِ الْمُضَارَبَةِ مَا سِوَى الدَّرَاهِمِ وَالدَّنَانِيرِ وَالْفُلُوسِ الرَّائِجَةِ لَمْ تَجُزْ الْمُضَارَبَةُ إجْمَاعًا.... (وَمِنْهَا) أَنْ يَكُونَ الْمَشْرُوطُ لِلْمُضَارِبِ مَشْرُوطًا مِنْ الرِّبْحِ لَا مِنْ رَأْسِ الْمَالِ حَتَّى لَوْ شَرَطَ شَيْئًا مِنْ رَأْسِ الْمَالِ أَوْ مِنْهُ وَمِنْ الرِّبْحِ فَسَدَتْ الْمُضَارَبَةُ كَذَا فِي مُحِيطِ السَّرَخْسِيِّ۔ (الفتاوی الہندیۃ : ٢٨٧-٤/٢٨٥)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
30 ربیع الآخر 1445

2 تبصرے:

  1. جزاک اللہ خیرا.... مفتی صاحب آپ نے بہت ہی اہم موضوع پر فتویٰ کی شکل میں رہنمائی کی ہے.... اب دل بالکل مطمئن ہوا... اللہ پاک آپ کے علم میں برکت عطا فرمائے آمین.

    جواب دیںحذف کریں