منگل، 1 دسمبر، 2020

ڈونیشن میں سودی رقم دینے کا حکم


سوال :

اسکول اور کالجوں میں ڈونیشن کا کیا حکم ہے؟ اگر کوئی شخص واقعی میں اس عہدہ کا اہل ہو تو کیا اس ڈونیشن میں سود کی رقم دی جا سکتی ہے یا نہیں؟ اور اگر سود کی رقم دے جائے تو آمدنی حلال ہوگی یا حرام؟ مدلل جواب مرحمت فرمائیں اور عنداللہ ماجور ہوں۔
(المستفتی : محمد مصدق، مالیگاؤں)
-------------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : بینک اکاؤنٹ میں جمع شدہ رقم سے ملنے والی یا انشورنس پالیسی مکمل ہونے پر ملنے والی سود کی رقم کو اس کے مالک کو لوٹانا ضروری ہے، یعنی جہاں سے یہ رقم آئی ہے وہیں واپس کردیا جائے لیکن اس اصول کو اختیار کرنے میں ہماری سودی رقم کو اغیار اسلام دشمنی کے کاموں میں لگادیتے ہیں، اس لیے دوسرے مصرف میں یہ رقم صَرف کی جائے یعنی اس رقم کو بلا نیتِ ثواب فقراء اور مساکین میں تقسیم کرنا چاہئے۔

اسی طرح بینک کے سود کی رقم سے خود کے انکم ٹیکس اور جی ایس ٹی کی ادائیگی کرنے کی علماء نے اجازت دی ہے۔ اس لئے کہ یہ دونوں غیرواجبی اور ظالمانہ ٹیکس ہیں، اور چونکہ بینکوں کا تعلق حکومت سے ہوتا ہے، جب سود کی رقم انکم ٹیکس میں دی جائے گی تو وہ اسی کے رب المال کی طرف لوٹے گی، اس کے علاوہ سود کی رقم کا اور کوئی مصرف نہیں ہے، جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ رشوت و ڈونیشن میں سودی رقم دی جاسکتی ہے وہ سخت غلطی پر ہیں، رشوت میں سودی رقم دینا گویا اس کا ذاتی استعمال کرنا ہے، نیز اس میں سودی رقم اس کے رب المال کی طرف نہیں لوٹ رہی ہے، بلکہ سرکاری یا غیر سرکاری افسروں یا انتظامیہ کی جیب میں جاتی ہے۔ تاہم اگر کسی نے ڈونیشن میں سودی رقم ادا کردی تو اس پر اتنی رقم مذکورہ بالا سودی رقم کے مصارف میں خرچ کرنا واجب ہوگا۔ اور اگر وہ اپنے مفوضہ کاموں کو ایمانداری سے ادا کرے تو اس کی تنخواہ حلال ہوگی۔

ملحوظ رہے کہ سودی رقم کا وبال بہت بڑھا ہوا ہے، لہٰذا ہرجگہ اس کے استعمال کی تدبیر کرنا انتہائی خطرناک رجحان ہے، جس پر بہت زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

لأن سبیل الکسب الخبیث التصدق إن تعذر الرد علی صاحبہ۔ (شامي : ۶؍۳۸۵)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
15 ربیع الآخر 1442

3 تبصرے: