منگل، 1 دسمبر، 2020

مہر سے متعلق چند اہم سوالات


سوال :

مکرمی جناب مفتی صاحب! ایک مسئلہ دریافت کرنا ہے کہ مہر مؤجل اور مہر معجل کسے کہتے ہیں؟ عام طور پر جو مہر مجلسِ نکاح میں ادا کردیا جاتا ہے اسے مہر معجل کہا جاتا ہے اور رجسٹر نکاح میں بھی مہر معجل کے ساتھ عموماً،، نقد ادا کیا گیا،، جیسے الفاظ لکھے جاتے ہیں۔ اور مہر مؤجل یعنی باقی لکھا جاتا ہے۔ اب مہر مؤجل اور معجل دونوں کی ادائیگی کی کچھ مدت متعین ہے یا فریقین بالخصوص لڑکے اور اس کے گھر والوں کی مرضی پر موقوف ہوتا ہے؟ مہر معجل طے کرنے کے بعد ایک دو سال تک ادا نہ کیا جائے تو شرعاً کیا حکم ہوگا؟
اگر مؤجل میں رقم لکھی گئی مثلاً آج کل پانچ ہزار روپے طے کیے گئے اور بیس تیس سال بعد ادا کیے جائیں تو اس وقت پانچ ہزار روپے کی کیا حیثیت رہ جائے گی؟
مذکورہ بالا تحریر میں ذکر کردہ سوالات کے جوابات مدلل انداز میں عنایت فرمائیں تو نوازش ہوگی۔
(المستفتی : محمد طلحہ، جلگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : مہر کی ادائیگی کے وقت کے اعتبار سے اس کی دو قسمیں ہیں : ایک معجل اور دوسرا مؤجل۔ معجل سے مراد وہ مہر ہے جس کا ادا کرنا نکاح کے فوراً بعد شوہر کے ذمہ واجب ہوجاتا ہے اور بیوی کو نکاح کے فوراً بعد اس کے مطالبہ کا پورا حق حاصل ہوتا ہے، اور اسے اس بات کا بھی اختیار ہوتا ہے کہ وہ شوہر کو جماع سے منع کردے۔ البتہ اگر بیوی کو اعتراض نہ ہوتو پھر شوہر پر کوئی گناہ نہیں۔ البتہ بلاعذر مہر معجل کی ادائیگی میں تاخیر کرنا گناہ کی بات ہے۔

دوسرے مہر مؤجل ہے، جس سے مراد وہ مہر ہے جس کی ادائیگی نکاح کے بعد فوراً واجب نہ ہو، بلکہ اس کی ادائیگی کے لیے کوئی خاص مدت مقرر کی گئی ہو یا اس کی ادائیگی کو مستقبل میں بیوی کے مطالبے پر موقوف رکھا گیا ہو، یعنی اگر کوئی خاص میعاد مقرر کی گئی ہو تو بیوی کو اس مقررہ وقت کے آنے سے پہلے اس مہر کے مطالبے کا حق نہیں ہوتا، اور اگر بیوی کے مطالبہ پر موقوف رکھا گیا ہو تو بیوی جب بھی مطالبہ کرے گی اس وقت شوہر کے ذمہ یہ مہر ادا کرنا لازم ہوجائے گا، لیکن اگر مہر مؤجل کے لیے نہ تو کوئی خاص میعاد رکھی گئی ہو یا نہ ہی بیوی کے مطالبہ کو میعاد بنایا گیا ہو تب بھی مہر ذمے میں لازم ہوتا ہے، البتہ اس کی ادائیگی طلاق یا موت کی وجہ سے جدائی کے وقت لازم ہوتی ہے۔

مہر مؤجل رکھی جائے اور طویل زمانہ مثلاً بیس تیس سال گزرنے کے بعد ادا کی جائے تو بلاشبہ اس رقم کی حیثیت بہت کم ہوجائے گی، لیکن یہ بات بھی اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ اگر مہر میں رقم متعین کی گئی ہے تو بعد میں اتنی ہی رقم ادا کرنا واجب ہوگا، کیونکہ یہ قرض کا معاملہ ہوتا ہے اور قرض کا حکم یہی ہے کہ وہ جس صورت میں لیا گیا ہے اسی کا اعتبار کرتے ہوئے ادا کیا جائے گا، مثلاً سونا چاندی کی صورت میں قرض لیا گیا ہے تو ادائیگی کے وقت اتنی ہی مقدار سونا چاندی یا اس کی قیمت کا ادا کرنا ضروری ہے، اور روپے کی شکل میں قرض لیا گیا ہے تو اتنی ہی مقدار میں روپے کا واپس کرنا ضروری ہے۔ اگر روپے کی حیثیت کا خیال کرکے بعد میں اس کی تعداد میں اضافہ کا مطالبہ کیا جائے تو یہ سود بن جائے گا، اور پھر قرض کا کوئی بھی معاملہ اس سود سے خالی نہیں بچے گا، کیونکہ ہر قرض دار اپنے قرض خواہ سے موجودہ حالات کے اعتبار سے قیمت کا مطالبہ کرے گا، اور ہم اس بات کو اچھی طرح جانتے ہیں کہ سال دو سال میں ہی روپے کی حیثیت کم ہوتی چلی جاتی ہے۔ البتہ شوہر کو اس بات کا مکمل اختیار ہے بلکہ بہتر ہے کہ وہ حسن سلوک کی نیت سے ادائیگی کے وقت مہر میں جتنا اضافہ کرنا چاہے کردے۔

شرعاً اور عقلاً ہر طرح سے افضل اور اولی یہی ہے کہ نکاح میں مہر معجل طے کی جائے، لیکن اگر بوقت ضرورت مہر مؤجل طے کرنے کی نوبت آجائے تو اس میں سونے کی کوئی مقدار متعین کی جائے تاکہ اگر طویل عرصے کے بعد بھی مہر ادا کی جائے تو سونے کی متعینہ مقدار ادا کی جائے یا اس کی قیمت ادا کی جائے۔ اور اس صورت میں مہر کی قیمت کی حیثیت بھی باقی رہے گی۔

وإن بينوا قدر المعجل يعجل ذلك، وإن لم يبينوا شيئاً ينظر إلى المرأة وإلى المهر المذكور في العقد أنه كم يكون المعجل لمثل هذه المرأة من مثل هذا المهر فيجعل ذلك معجلاً ولايقدر بالربع ولا بالخمس وإنما ينظر إلى المتعارف، وإن شرطوا في العقد تعجيل كل المهر يجعل الكل معجلاً ويترك العرف، كذا في فتاوى قاضي خان ... ولو قال: نصفه معجل ونصفه مؤجل كما جرت العادة في ديارنا ولم يذكر الوقت للمؤجل، اختلف المشايخ فيه، قال بعضهم: لايجوز الأجل ويجب حالاً، وقال بعضهم: يجوز ويقع ذلك على وقت وقوع الفرقة بالموت أو بالطلاق، وروى عن أبي يوسف - رحمه الله تعالى - ما يؤيد هذا القول، كذا في البدائع.

لا خلاف لأحد أن تأجيل المهر إلى غاية معلومة نحو شهر أو سنة صحيح، وإن كان لا إلى غاية معلومة فقد اختلف المشايخ فيه، قال بعضهم: يصح وهو الصحيح وهذا؛ لأن الغاية معلومة في نفسها وهو الطلاق أو الموت ألا يرى أن تأجيل البعض صحيح، وإن لم ينصا على غاية معلومة، كذا في المحيط. وبالطلاق الرجعي يتعجل المؤجل ولو راجعها لايتأجل، كذا أفتى الإمام الأستاذ، كذا في الخلاصة ۔(الفتاوى الهندية : ١/٣١٨)

استقرض من الفلوس الرائجۃ فعلیہ مثلہا کاسدۃ ولا یغرم قیمتہا۔ قال الشامي: أي إذا ہلک وإلا فیرد عینہا اتفاقاً۔ (درمختار مع الشامي، کتاب البیوع، باب المرابحۃ والتولیۃ، فصل في القرض، ۷/۳۹۰)

لأن المعجل خیر من المؤجل۔ (ہدایۃ، کتاب الصلح، باب الصلح في الدین، ۳/۲۵۱)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
15 ربیع الآخر 1442

3 تبصرے:

  1. جزاکم اللہ... اللہ آپ کے علم میں مزید اضافہ فرمائے آمین..

    جواب دیںحذف کریں
  2. انصاری محمود11 مئی، 2023 کو 6:04 PM

    ماشاء اللہ

    جواب دیںحذف کریں
  3. السلام علیکم ورحمتہ وبرکاتہ آجکے دور کے حساب سے مہر کی مقدار کیا ہے کتنا مہر طے کر نا چاہئے

    جواب دیںحذف کریں