بدھ، 2 دسمبر، 2020

نومولود کے کفن دفن کے احکام

سوال :

مفتی صاحب! جو بچہ ماں کے پیٹ میں انتقال کرگیا ہو تو ایسے بچے کی نماز جنازہ پڑھیں گے یا نہیں؟ اور اس کے کفن دفن کا کیا حکم ہوگا؟ اور جو بچہ پیدا ہونے کے کچھ دیر کے بعد انتقال کرجائے تو ایسے بچے کی نماز جنازہ اور کفن دفن کا کیا حکم ہوگا؟ جواب عنایت فرمائیں۔
(المستفتی : حافظ عمران، مالیگاؤں)
-----------------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : جو بچہ ماں کے پیٹ سے مرا ہی پیدا ہو اور پیدا ہوتے وقت زندگی کی کوئی علامت نہیں پائی گئی تو اسے غسل (مسنون غسل دینے کی ضرورت نہیں) دے کر یعنی اچھی طرح گندگی سے صاف کرکے کسی ایک کپڑے میں لپیٹ کر گڑھا کھود کر دفن کر دیا جائے۔ اس پر نمازِجنازہ نہیں پڑھی جائے گی، اور بہتر ہے کہ اس کا نام بھی رکھ دیا جائے، لیکن اگر نام نہیں رکھا گیا تب بھی کوئی گناہ کی بات نہیں ہے۔

جو بچہ زندہ پیدا ہوا یعنی اس میں زندگی کے آثار پائے گئے خواہ ایک سانس ہی کیوں نہ لیا ہو پھر انتقال کرجائے تو اس پر تمام احکام لاگو ہوں گے، یعنی اسے غسل اور کفن دے کر اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی، اور مسنون طریقہ پر اس کی تدفین ہوگی، نیز اس کا نام بھی رکھا جائے گا۔

ولادت کے وقت بچے کا فقط سر نکلا، اس وقت وہ زندہ تھا پھر مر گیا تو اس کا وہی حکم ہے جو مردہ پیدا ہونے والے بچے کا حکم ہے، البتہ اگر زیادہ حصہ نکل آیا، اس کے بعد مرا تو ایسا سمجھیں گے کہ وہ زندہ پیدا ہوا یعنی اگر سر کی طرف سے پیدا ہوا تو سینے تک نکلنے سے سمجھیں گے کہ زیادہ حصہ نکل آیا اور اگر الٹا پیدا ہوا تو ناف تک نکلنا چاہیے۔ چنانچہ اس پر مذکورہ بالا زندہ بچوں کے احکام لاگو ہوں گے۔

وإن لم یستہل غسل في المختار وأدرج في خرقۃ، ودفن ولم یصل علیہ الخ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ، الباب الحادي والعشرون في صلاۃ الجنازۃ، ۱/۲۱۹)

غسل و سمي عند الثاني، وہو الأصح، فیفتي بہ علی خلاف ظاہر الروایۃ، ووجہہ أن تسمیتہ تقتضي حشرہ الخ۔ (شامي، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجنازۃ، ۳/۱۳۱) 

من استہل بعد الولادۃ سمي، وغسل وصلي علیہ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ، الباب الحادي العشر في صلاۃ الجنازۃ، ۱/۲۱۹)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
16 ربیع الآخر 1442

2 تبصرے: