جمعرات، 10 دسمبر، 2020

سالی سے زنا کرنے کا حکم

سوال :

حضرت اگر کوئی اپنی سالی سے زنا کر لیا تو کیا اسکی بڑی بہن کے ساتھ نکاح باقی رہے گا یا نہیں؟
٢) اگر سالی پیٹ سے ہے تو نکاح باقی رہے گا یا نہیں؟
٣) اگر سالی پیٹ سے ہے تو پھر کیا کرنا پڑے گا؟
٤) جب اولاد ہو جائے تو پھر کس کے پاس جائے گی؟
٥) اس لڑکی کی شادی کسی دوسرے لڑکے کے ساتھ ہوگی تو وہ بچہ کا کیا کرے گا؟ کون رکھے گا؟
(المستفتی : محمد مصطفی، بمبئی)
--------------------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : بلاشبہ زنا ایک سنگین گناہ ہے، جس پر دنیا وآخرت میں سخت سزائیں شریعت مطہرہ نے مقرر فرمائی ہیں۔ اور اگر یہ قبیح فعل اگر سالی کے ساتھ سرزد ہوتو اس کی قباحت مزید بڑھ جائے گی، تاہم سالی سے زنا کرنے کی وجہ سے اس کی بہن حرام نہیں ہوگی، دونوں کا نکاح بدستور قائم رہے گا، البتہ سالی کو ایک حیض آنے تک بیوی سے وطی کرنا جائز نہیں۔

وطئ أخت امرأتہ لاتحرم علیہ امرأتہ الخ (در مختار، کتاب النکاح، فصل في المحرمات، ۴/۱۰۹)

ولوزنیٰ بإحدی الأختین لایقرب الأخریٰ حتی تحیض الأخریٰ بحیضۃ۔ (مجمع الأنہر : ۱/۴۷۹)

٢) اگر سالی اس زنا سے حاملہ ہوگئی تب بھی اس کی بہن سے نکاح باقی رہے گا۔ البتہ ایسے شخص کے لیے اپنی بیوی سے ہم بستری اس وقت تک حلال نہیں جب تک سالی کو وضع حمل نہ ہو جائے۔

قَالَ رَحِمَهُ اللَّهُ : (وَالْمَنْكُوحَةُ نِكَاحًا فَاسِدًا، وَالْمَوْطُوءَةُ بِشُبْهَةٍ، وَأُمُّ الْوَلَدِ الْحَيْضُ لِلْمَوْتِ وَغَيْرِهِ) أَيْ عِدَّةُ هَؤُلَاءِ الثَّلَاثِ الْحَيْضُ إذَا فَارَقَتْهُ بِالْمَوْتِ أَوْ غَيْرِهِ مِنْ تَفْرِيقِ الْقَاضِي أَوْ عَزَمَ الْوَاطِئُ عَلَى تَرْكِ وَطْئِهَا أَوْ عِتْقِ أُمِّ الْوَلَدِ، وَمَعْنَاهُ إذَا لَمْ تَكُنْ حَامِلًا، وَلَا آيِسَةً لِأَنَّ عِدَّتَهُنَّ لِلتَّعَرُّفِ عَلَى بَرَاءَةِ الرَّحِمِ لَا لِقَضَاءِ حَقِّ النِّكَاحِ، وَالْحَيْضُ هُوَ الْمُعَرِّفُ فِي غَيْرِ الْحَامِلِ وَالْآيِسَةِ۔ (تبیین الحقائق، بَابُ الْعِدَّةِ، ٣ / ٣٠)

٣، ٤) اگر سالی کنواری ہے تو اس زنا سے ہونے والی اولاد کا نسب اسی کی طرف (والدہ) ہوگا، اور یہ بچہ والدہ کے پاس ہی رہے گا، زانی سے اسکا کوئی تعلق نہیں ہوگا۔ لہٰذا بہتر ہوگا کہ یہ صورت بتاکر کسی کے ساتھ اس کا نکاح کردیا جائے۔

٥) حالت حمل میں اس کا نکاح کسی سے کیا جائے تو بچے کی پیدائش سے پہلے اس سے جماع درست نہ ہوگا، اگر نکاح کے چھ مہینے کے بعد بچے کی پیدائش ہوگی تو اس کا نسب شوہر سے ثابت ہوگا، لیکن اگر چھ مہینہ سے کم کے اندر بچہ پیدا ہوگیا، تو اس کا نسب شوہر سے ثابت نہ ہوگا بلکہ وہ صرف ماں کی طرف منسوب ہوگا، تاہم اگر شوہر شرعی عدالت میں دعویٰ کرے کہ یہ بچہ میرا ہے، تو بچہ کا نسب اُس شوہر سے قضاءاً ثابت ہوجائے گا۔ اس صورت میں دارالقضاء سے رجوع کیا جائے گا۔

وصح نکاح حبلی من زنا لا حبلی من غیرہ، أي الزني لثبوت نسبہ، وإن حرم وطؤہا ودواعیہ حتی تضع - إلی قولہ - لو نکحہا الزاني حل لہ وطؤہا اتفاقا، والولد لہ ولزمہ النفقۃ۔ (الدر المختار)

وفي الشامي : أي إن جاء ت بعد النکاح لستۃ أشہر، فلو لأقل من ستۃ أشہر من وقت النکاح لا یثبت النسب، إلا أن یقول ہٰذا الولد مني ولا یقول من الزنا الخ۔ (الدر المختار مع الشامي، کتاب النکاح / قبیل مطلب فیما لو زوّج المولی أمتہ ۴؍۱۴۱-۱۴۲)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
23 ربیع الآخر 1442
الجواب صحیح
قاضی محمد حسنین محفوظ نعمانی
قاضی شریعت دارالقضاء معہد ملت، مالیگاؤں

4 تبصرے: