منگل، 22 دسمبر، 2020

ضحوۂ کبری کی حقیقت اور اس کا حکم

سوال :

محترم مفتی صاحب ! ضحوۂ کبری کی کیا حقیقت ہے؟ جیسا کہ ایک تقویم میں لکھا ہے کہ اس کا وقت چالیس سے پینتالیس منٹ ہے، اور اس درمیان نماز پڑھنا منع ہے، آپ سے درخواست ہے کہ اس کی وضاحت فرمادیں۔
(المستفتی : حافظ رئیس جمالی، مالیگاؤں)
------------------------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : ضحوۂ کبری کو سمجھنے کے لیے سب سے پہلے یہ سمجھ لیں کہ دن دو طرح کا ہوتا ہے، ایک شرعی دن، دوسرے عرفی دن جسے شمسی دن بھی کہا جاتا ہے۔

شرعی دن صبح صادق سے غروب آفتاب تک کے وقت کو کہتے ہیں، جبکہ عرفی اور شمسی دن طلوع آفتاب سے غروب آفتاب تک کا وقت کہلاتا ہے۔

اس کو مثال کے ساتھ سمجھ لی‍ں کہ آج 21 دسمبر کو 05 بجکر 43 منٹ پر صبح صادق ہوئی، اور غروب آفتاب 05 بج کر 56 منٹ پر ہوا ہے، تو آج کا پورا شرعی دن 12 گھنٹہ 13 منٹ کا ہوا، اس پورے وقت میں روزہ رکھا جاتا ہے۔ اور اس شرعی دن کا آدھا نصف النہار شرعی کہلائے گا، اور آدھے میں 06 گھنٹہ 07 منٹ ہوا تو اس حساب سے نصف النہار شرعی 11 بجکر 50 منٹ پر ہوگا، اسی کو ’’ضحوۂ کبری‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس کے تقریباً چالیس منٹ کے بعد زوال کا وقت ہوتا ہے جسے نصف النہار عرفی بھی کہا جاتا ہے۔ اب اسے بھی مثال کے ذریعے سمجھ لیں۔

طلوع آفتاب سے لے کر غروب آفتاب کے درمیان کا وقت جس میں ہر چیز کا سایۂ اصلی اس چیز کے ٹھیک برابر نیچے ہوتا ہے اور ذرا سا بھی ڈھل جائے تو اسے زوال کا وقت کہا جاتا ہے، لہٰذا آج 21 دسمبر کو 07 بجکر 02 منٹ پر سورج طلوع ہوا اور 05 بجکر 56 منٹ پر غروب ہوا ہے، تو آج کا پورا عرفی اور شمسی دن 10 گھنٹہ 53 منٹ کا ہوگا، تو اس کا نصف ٹھیک 12 بجکر 30 منٹ پر ہوگا۔ لہٰذا 12 بجکر 30 منٹ پر زوال کا وقت ہوگا، جسے نصف النہار عرفی بھی کہتے ہیں۔ اس وقت کوئی بھی نماز پڑھنا جائز نہیں، یہ وقت اصلاً صرف ایک ڈیڑھ منٹ کا ہوتا ہے، جس میں نماز پڑھنا جائز نہیں ہوتا، البتہ احتیاطاً دو منٹ پہلے اور دو منٹ بعد تک کوئی بھی نماز نہیں پڑھنا چاہیے۔ اس وقت سے پہلے پہلے کوئی بھی نماز پڑھنا جائز ہوتا ہے۔

خلاصہ یہ کہ ضحوۂ کبری جس کو نصف النہار شرعی کہا جاتا ہے ایک مستقل وقت ہوتا ہے، اس سے ہٹ کر وقت زوال جس کو نصف النہار عرفی بھی کہا جاتا ہے، بالکل الگ دوسرا وقت ہوتا ہے اور دونوں کے درمیان تقریباً چالیس منٹ کا فاصلہ ہوتا ہے، اور ضحوۂ کبری کا تعلق نماز سے نہیں، بلکہ روزہ سے ہے، یعنی اگر کسی شخص نے صبح صادق کے بعد روزہ توڑنے والا کوئی عمل نہ کیا ہو تو ایسا شخص ضحوۃ الکبری سے پہلے پہلے کسی بھی روزہ (خواہ نفل ہو یا فرض) کی نیت کرلے تو اس کا روزہ شروع ہوجائے گا۔ لیکن اگر ضحوۂ کبری کے بعد روزہ کی نیت کرے تو اس کا روزہ نہیں ہوگا۔

چنانچہ اگر کسی تقویم میں ضحوۂ کبری کا خانہ بنا بھی ہوتو وہاں اس بات کی وضاحت ہونی چاہیے کہ اس کا تعلق نماز سے نہیں بلکہ روزہ سے ہے۔ اور جس تقویم میں اس وقت نماز سے منع کیا گیا ہو تو سمجھ لینا چاہیے کہ یہ بات راجح اور مفتی بہ قول کے خلاف ہے، لہٰذا اس پر عمل نہیں کیا جائے گا۔

(فَيَصِحُّ) أَدَاءُ (صَوْمِ رَمَضَانَ وَالنَّذْرِ الْمُعَيَّنِ وَالنَّفَلِ بِنِيَّةٍ مِنْ اللَّيْلِ) فَلَا تَصِحُّ قَبْلَ الْغُرُوبِ وَلَا عِنْدَهُ (إلَى الضَّحْوَةِ الْكُبْرَى لَا) بَعْدَهَا وَلَا (عِنْدَهَا) اعْتِبَارًا لِأَكْثَرِ الْيَوْمِ۔ (وتحتہ في الشامیۃ) الْمُرَادُ بِهَا نِصْفُ النَّهَارِ الشَّرْعِيِّ وَالنَّهَارُ الشَّرْعِيُّ مِنْ اسْتِطَارَة الضَّوْءِ فِي أُفُقِ الْمَشْرِقِ إلَى غُرُوبِ الشَّمْسِ -إلی قولہ- لِأَنَّ الزَّوَالَ نِصْفُ النَّهَارِ مِنْ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَوَقْتِ الصَّوْمِ مِنْ طُلُوعِ الْفَجْرِ كَمَا فِي الْبَحْرِ عَنْ الْمَبْسُوطِ قَالَ فِي الْهِدَايَةِ وَفِي الْجَامِعِ الصَّغِيرِ قَبْلَ نِصْفِ النَّهَارِ وَهُوَ الْأَصَحُّ؛ لِأَنَّهُ لَا بُدَّ مِنْ وُجُودِ النِّيَّةِ فِي أَكْثَرِ النَّهَارِ وَنِصْفُهُ مِنْ وَقْتِ طُلُوعِ الْفَجْرِ إلَى وَقْتِ الضَّحْوَةِ الْكُبْرَى لَا وَقْتَ الزَّوَالِ فَتُشْتَرَطُ النِّيَّةُ قَبْلَهَا لِتَتَحَقَّقَ فِي الْأَكْثَرِ. -إلی قولہ- قَدْ عَلِمْت أَنَّ النَّهَارَ الشَّرْعِيَّ مِنْ طُلُوعِ الْفَجْرِ إلَى الْغُرُوبِ وَاعْلَمْ أَنَّ كُلَّ قُطْرٍ نِصْفُ نَهَارِهِ قَبْلَ زَوَالِهِ بِنِصْفِ حِصَّةِ فَجْرِهِ فَمَتَى كَانَ الْبَاقِي لِلزَّوَالِ أَكْثَرَ مِنْ هَذَا النِّصْفِ صَحَّ وَإِلَّا فَلَا تَصِحُّ النِّيَّةُ -وقولہ- وَإِذَا نَوَى الصَّوْمَ مِنْ النَّهَارِ يَنْوِي أَنَّهُ صَائِمٌ مِنْ أَوَّلِهِ حَتَّى لَوْ نَوَى قَبْل الزَّوَالِ أَنَّهُ صَائِمٌ فِي حِينِ نَوَى لَا مِنْ أَوَّلِهِ لَا يَصِيرُ صَائِمًا۔ (شامي : ٢/ ۳۷۷)

(قَوْلُهُ: وَاسْتِوَاءٍ) التَّعْبِيرُ بِهِ أَوْلَى مِنْ التَّعْبِيرِ بِوَقْتِ الزَّوَالِ، -إلی قولہ- وَقَدْ وَقَعَ فِي عِبَارَاتِ الْفُقَهَاءِ أَنَّ الْوَقْتَ الْمَكْرُوهَ هُوَ عِنْدَ انْتِصَافِ النَّهَارِ إلَى أَنْ تَزُولَ الشَّمْسُ وَلَا يَخْفَى أَنَّ زَوَالَ الشَّمْسِ إنَّمَا هُوَ عَقِيبَ انْتِصَافِ النَّهَارِ بِلَا فَصْلٍ، وَفِي هَذَا الْقَدْرِ مِنْ الزَّمَانِ لَا يُمْكِنُ أَدَاءُ صَلَاةٍ فِيهِ، فَلَعَلَّ أَنَّهُ لَا تَجُوزُ الصَّلَاةُ بِحَيْثُ يَقَعُ جُزْءٌ مِنْهَا فِي هَذَا الزَّمَانِ، -إلی قولہ- فِي الْقُهُسْتَانِيِّ الْقَوْلَ بِأَنَّ الْمُرَادَ انْتِصَافُ النَّهَارِ الْعُرْفِيِّ إلَى أَئِمَّةِ مَا رَوَاهُ النَّهْرُ۔ (شامي : ۱/ ۳۷۱)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
05 جمادی الاول 1442

3 تبصرے:

  1. جزاک اللہ خیرا و أحسن الجزاء، آج بعد نماز فجر یہی بات سامنے آئی تھی، ابھی آپ کی تحقیق نے سارا مسئلہ حل کردیا. لك الشكر الجزيل

    جواب دیںحذف کریں