اتوار، 20 دسمبر، 2020

بچوں کو مسجد لانے سے متعلق اہم سوالات

سوال :

حضرت مفتی صاحب! مسجد میں چھوٹے بچوں کو لانے اور دوران نماز ان کی شرارتوں سے متعلق چند سوالات پیشِ خدمت ہیں۔
امید ہے کہ مفصل جواب عنایت فرمائیں گے۔
سوال نمبر 1) کیا مسجد میں  کسی بھی عمر اور سمجھ بوجھ کے بچے لائے جا سکتے ہیں؟ یا ان بچوں کی عمر اور سمجھ بوجھ کی کچھ قید بھی ہے؟
سوال نمبر 2) کیا مسجد میں شرارتی بچوں کے شور و غل، بھاگ دوڑ، نوک جھونک اور دوران جہری نماز امام صاحب کی باآواز بلند نقل اتارنے کو برداشت کر لینا چاہیے؟
سوال نمبر 3) تُرکی کی کہاوت کو مثال کے طور پر پیش کرنا کہ "اگر تمہاری مسجدوں سے بچوں کے شور و غل کی آوازیں بند ہو گئیں تو اپنے مستقبل (کے نمازیوں) کی فکر میں پڑ جاؤ." اس کو جواز بنا کر کسی بھی عمر کے نابالغ شرارتی بچوں کو مسجد میں لانا اور ان کی شرارتوں، شور و غل کو برداشت کرنا جائز ہو جاتا ہے؟ ہم قرآن و حدیث، آثار و اجماع صحابہ رضی اللہ عنہم اور فقہائے کرام کی باتوں سے مسائل کا حل حاصل کریں گے یا کسی مخصوص علاقے کے حالات اور وہاں کی کہاوتوں کو دلیل بنائیں گے؟
سوال نمبر 4) ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے نواسوں (حضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنہما) اور اپنی نواسی (حضرت امامہ رضی اللہ عنہا) کو دورانِ نماز اپنی پشت پر سوار ہونے دینا، انہیں ہاتھوں میں اٹھا لینا، سجدہ طویل کر دینا..... کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ طریقہ کار مسجد میں شرارتی بچوں کی شرارت کو برداشت کرنے کی دلیل ہے؟
سوال نمبر 5) جن بچوں کے بارے میں یقین ہے، ثبوت بھی مل چکا ہے کہ یہ بچے دورانِ نماز چینخ و پکار، بھاگ دوڑ کرتے ہیں، اُن بچوں کی (جو ایک دو سے زائد ہوتے ہیں) مسجد کے باہر صحن میں صف لگا دی جائے تو کیا یہ عمل خلافِ شرع ہو جائے گا؟
ازراہ کرم مفصل جواب دے کر ممنون و مشکور فرمائیں، ثوابِ دارین کے مستحق بنیں۔
(المستفتی : تَوصِیف احمد اِشتِیاق احمد، مسجد بھاؤ میاں، نیاپورہ، فتح میدان)
-----------------------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : بچوں کو مسجد میں لانے کے سلسلے میں ہمارے یہاں لوگ افراط و تفریط کا شکار ہیں، بعض تو وہ ہیں جو مطلقاً مسجد میں بچوں کو لانے کو ناجائز سمجھتے ہیں یا پھر ان کی معمولی سی شرارت پر خود چینخ پکار کرکے مسجد کا تقدس پامال کردیتے ہیں۔ اور بعض وہ ہیں جو بہت چھوٹی عمر کے بچوں کو بھی مسجد لے آتے ہیں جو مصلیان کے خلل کا سبب بنتے ہیں۔ چنانچہ ان حالات میں آپ کے سوالات کافی اہمیت کے حامل ہیں۔

1) متعدد احادیث میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ ارشاد منقول ہے کہ اپنی مسجدوں کو ناسمجھ بچوں، پاگلوں، خرید وفروخت، جھگڑوں اور اپنی آوازوں کو بلند کرنے وغیرہ سے محفوظ رکھو۔ لہٰذا بہت چھوٹے اور ناسمجھ بچے جن کی عمر چھ سال سے کم ہو ان کو مسجد میں نہیں لانا چاہئے، کیونکہ وہ عام طور پر نمازی حضرات کے لئے ایذا و خلل کا سبب بنتے ہیں، اور مسجد کی بے حرمتی بھی کرتے ہیں، البتہ چھ/سات سال کی عمر کے بچے جو سمجھ دار ہوتے ہیں ان کو مسجد میں لانا چاہئے تاکہ وہ نماز باجماعت کے عادی بن سکیں، کیونکہ بچے جب سمجھدار ہوں گے تب ہی تو وہ نماز کو سمجھیں گے۔ اگر ایسے بچے ایک دو ہوں تو ان کو بڑوں کی صف میں کھڑا کرنے میں کوئی حرج نہیں اور کوئی بھی بچہ اگر بڑوں کی صف میں کھڑا ہوجائے، تو اس سے بڑوں کی نماز میں کوئی خرابی نہیں آتی، یہ سمجھنا بڑی غلطی ہے کہ بچوں کے صف میں لگنے کی وجہ سے بڑوں کی نماز فاسد ہوجاتی ہے۔ اور اگر بچے متعدد ہوں تو مستحب ہے کہ مردوں کے پیچھے ان کی الگ صف بنائی جائے۔

2) اگر شرارتی بچوں کے شور و غل، بھاگ دوڑ، نوک جھونک اور جہری نماز کے دوران امام صاحب کی باآواز بلند نقل اتارنے کو برداشت کرنے کا حکم ہوتا تو پھر مذکورہ بالا آپ علیہ السلام کے فرمان کا کیا مطلب ہوا؟ بلاشبہ بچوں کو اس سے روکا جائے گا، لیکن حکمت اور خیرخواہی کے جذبہ کے ساتھ، کیونکہ اگر بچے سات سال کی عمر کے ہیں تو پھر انہیں بالکل ہی مسجد میں آنے نا دینا یا ان کی شرارت پر ان کے سرپرستوں کے علاوہ کسی اور کا انہیں مارنا یا سخت سُست کہہ دینا بھی فتنہ اور انتشار کا سبب بنے گا۔ لہٰذا حکمت کے ساتھ بالخصوص ان کے سرپرستوں کے لیے حکم ہے کہ انہیں سیدھا کرنے کی کوشش کریں اور انہیں مسجد کی اہمیت اور اس کے تقدس کا خیال کرنے کی تلقین کریں، ورنہ اس سلسلے میں غفلت برتنے کی وجہ سے وہ خود گناہ گار ہوں گے۔

3) پہلی بات تو یہی تحقیق طلب ہے کہ یہ تُرکی کہاوت ہے بھی یا نہیں؟ کیونکہ آج کل تُرکی کے نام پر ہر رطب ویابس کو ہاتھوں ہاتھ لے لیا جاتا ہے، اس لیے ہمیں تو یہ کہاوت بھی سوشل میڈیائی پیداوار معلوم ہوتی ہے۔ تاہم بالفرض اگر اسے تُرکی کہاوت مان بھی لیا جائے تو اس کہاوت کی کوئی حیثیت نہیں ہے، کیونکہ کوئی بھی شرعی مسئلہ دلائل اربعہ یعنی قرآن و حدیث اجماع اور قیاس سے حل ہوگا نہ کہ کسی کہاوت سے۔ چنانچہ اس مسئلہ سے متعلق دلائل اربعہ کی روشنی میں اوپر رہنمائی کردی گئی ہے، لہٰذا اس کہاوت کو دلیل بنانا درست نہیں ہے۔

4) آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ عمل استثنائی صورت ہے، لہٰذا اسے دلیل نہیں بنایا جاسکتا، کیونکہ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف سے واضح ممانعت موجود ہے۔

5) جن بچوں کے بارے میں یقین ہو کہ نماز میں شرارت کرتے ہیں اور نمازیوں کے خلل کا سبب بنتے ہیں، ایسے بچوں کی صف پیچھے صحن میں لگانے سے ان کے شور وغل سے بچنے کا امکان ہوتو بلاشبہ ایسا کرنا جائز بلکہ بہتر ہے۔

عن واثلۃ بن الأسقع، أن النبي ﷺ قال : ’’ جنّبوا مساجدَکم صبیانَکم، ومجانینَکم وشرائَ کم وبیعکم ، وخصوماتکم ، ورفع أصواتکم ، وإقامۃ حدودکم ، وسلّ سیوفکم۔ (سنن ابن ماجۃ، کتاب المساجد/ باب ما یکرہ في المساجد، رقم : ۷۵۰)

ویحرم ادخال الصبیان والمجانین حیث غلب تنجیسھم وفی الشامیہ وقولہ یحرم الخ لما اخرجہ المنذری مرفوعاً جنبوا مساجد کم صبیانکم الخ والمراد بالحرمۃ کراھۃ التحریم الخ۔ (شامی : ۴۸۶/ ۱)

قال أبومالک الأشعري : ألا أحدثکم بصلاۃ النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: فأقام الصلاۃ، وصف الرجال وصف خلفہم الغلمان ثم صلی بہم۔ (سنن أبي داؤد / باب مقام الصبیان من الصف، رقم: ۶۷۷)

صرّح الفقہاء بأنہ : لو اجتمع الرجال والنساء والصبیان، فأرادوا أن یصطفوا لصلاۃ الجماعۃ، یقوم الرجال صفًا مما یلي الإمام، ثم الصبیان بعدہم، ثم الإناث۔ (۱۱/۱۶۵ ، الترتیب في صفوف الصلاۃ، ترتیب، الموسوعۃ الفقہیۃ)

إن الصبي الواحد لا یکون منفرداً عن صف؛ بل یدخل في صفہم۔ (البحر الرائق : ۱؍۳۵۳)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
04 جمادی الاول 1442

6 تبصرے:

  1. الحمد للہ
    جزاک اللہ خیرا مفتی صاحب
    اللہ تعالیٰ آپ سے تا حیات اس کے بندوں کے لئے افتاء کی خدمات لیتا رہے، شرور و فتن سے محفوظ و مامون رکھے....

    جواب دیںحذف کریں
  2. السلام علیکم ورحمةاللہ
    ماشاءاللہ جزاک اللہ خیرا

    جواب دیںحذف کریں
  3. اسلام علیکم
    جزاک اللہ خیرا

    جواب دیںحذف کریں
  4. جزاک اللہ خیرا کثیرا

    جواب دیںحذف کریں
  5. نفیس فاروقی26 اگست، 2023 کو 5:49 PM

    اللہ تعالی آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے آمین

    جواب دیںحذف کریں