جمعہ، 27 مارچ، 2020

گھروں میں باجماعت نماز کے لیے اذان کا حکم

*گھروں میں باجماعت نماز کے لیے اذان کا حکم*

سوال :

جناب والا! حالات حاضرہ کو دیکھتے ہوئے گھروں میں نمازں ادا کرنے کا اعلان کیا جارہا ہے۔ اور گھروں میں نماز باجماعت ادا کرنے کے طریقے بھی بتائے جارہے ہیں۔ تو میں آپ سے یہ جاننا چاہتا ہوں کہ کیا گھروں میں نماز باجماعت ادا کرنے کے لیے اذان دینا ضروری ہے؟ براہ کرم اس ضمن میں شریعت مطہرہ کی رو سے جواب عنایت فرما کر عنداللہ ماجور ہوں۔
(المستفتی : اشتیاق احمد 42، مالیگاؤں)
--------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : صورتِ مسئولہ میں گھروں میں نماز باجماعت پڑھنے والوں کے لیے اذان کہنا مسنون نہیں ہے۔ اس لئے کہ محلہ کی اذان اُن کے لیے کافی ہوجاتی ہے۔ لہٰذا الگ سے اذان دینا ضروری نہیں۔ البتہ اُن کے لیے اذان دے دینا بہتر ہے۔ لیکن اگر محلہ کی مسجد کی اذان سے پہلے گھر میں باجماعت نماز پڑھنا ہوتو اس کے لیے کہنا سنت ہے، لہٰذا اس کا اہتمام کیا جائے گا۔

وَإِنْ كَانَ فِي كَرْمٍ أَوْ ضَيْعَةٍ يُكْتَفَى بِأَذَانِ الْقَرْيَةِ أَوْ الْبَلْدَةِ إنْ كَانَ قَرِيبًا وَإِلَّا فَلَا وَحَدُّ الْقَرِيبِ أَنْ يَبْلُغَ الْأَذَانُ إلَيْهِ مِنْهَا. كَذَا فِي مُخْتَارِ الْفَتَاوَى وَإِنْ أَذَّنُوا كَانَ أَوْلَى. كَذَا فِي الْخُلَاصَةِ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ١/٥٤)

وهو (الأذان) سنۃ للرجال في مکان عالٍ مؤکدۃ هي کالواجب في لحوق الإثم (درمختار) لکن لا یکرہ ترکہ لمصلیً في بیتہ في المصر؛ لأن أذان الحي یکفیہ کما سیأتي، وفي الإمداد: أنہ یأتي بہ ندبا۔ (شامي : ۲/۴۹)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
02 شعبان المعظم 1441

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں