پیر، 16 مارچ، 2020

موبائل ٹاور لگوانا اور اس کا کرایہ وصول کرنا

*موبائل ٹاور لگوانا اور اس کا کرایہ وصول کرنا*

سوال :

محترم مفتی صاحب ! آج کل مسلم علاقوں میں مسلم گھرانوں کی بلڈنگوں اور جگہوں پر موبائل ٹاور نصب کئے جا رہے ہیں، بعض احباب کا کہنا ہے کہ ان موبائل ٹاورز کو جگہ دینا اور ان کا کرایہ لینا لینا مشتبہ/ ناجائز/ حرام ہے۔ کیونکہ موبائل ٹاور سے آس پاس کے لوگوں کی صحت کو خطرہ لاحق ہو جاتا ہے اور دوسری بات یہ کہ موبائل پر جو لوگ غلط سلط، حرام کام کریں گے تو ان کا گناہ موبائل ٹاور نصب کروانے والے پر آئے گا۔
اسکے جواب میں جن لوگوں کے یہاں موبائل ٹاور لگا ہوا ہے ان کا کہنا ہے کہ آپکے جیب میں ہی موبائل ہے جس سے سیدھا آپ کو خطرہ لاحق ہے، اور رہی بات حرام کام کرنے کی، تو وہ تو کرنے والے دوسرے طریقے سے بھی کر لیتے ہیں۔
آپ سے گزارش ہے کہ اس مسئلے پر بھی مدلل رہنمائی فرمائیں اور عام شہریوں کو اپنے علوم و فیوض کی دولت سے مالا مال فرمائیں۔
(المستفتی : عمران الحسن، مالیگاؤں)
-------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : انٹرنیٹ وائی کنکشن کے مسئلہ میں ہم نے لکھا تھا کہ انٹرنیٹ میں اپنی ذات کے اعتبار سے شرعاً کوئی قباحت نہیں ہے، بلکہ اس کا پورا دارومدار استعمال کرنے والے پر ہے، اس کی مثال بالکل ایسی ہی ہے جیسے کوئی بندوق کا جائز استعمال کرتے ہوئے اس سے کسی حلال جانور کا شکار کرے اور اپنی بھوک مٹائے، یا پھر اس کا افضل استعمال کرتے ہوئے کسی دشمنِ دین کو واصل جہنم کردے اور اجر و ثواب کا مستحق ہو یا پھر اس کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے کسی کا ناحق قتل کردے اور جہنم کا مستحق ٹھہرے۔ اسی طرح انٹرنیٹ کا استعمال اگر کوئی اپنی جائز تجارت میں کرے تو یہ اس کے لئے شرعاً درست ہے، اگر کوئی اس کا استعمال باطل کی سازشوں کو ملیامیٹ کرنے کے لیے کرے اور اسلام کی صحیح شکل و صورت لوگوں کے سامنے پیش کرے تو ایسا شخص عنداللہ اجر عظیم کا مستحق ہوگا، اگر کوئی اس کا استعمال لوگوں کو دھوکہ دینے، فحاشی اور عریانیت کے مناظر دیکھنے کے لیے کرے تو بلاشبہ وہ گناہ گار ہوگا۔

رہی بات ٹاور سے نکلنے والی شعاؤں کی وجہ سے انسانی صحت پر اثر پڑنے کی تو جیسا کہ سوال نامہ میں ذکر کیا گیا ہے کہ بذات خود موبائل سے نکلنے والی شعائیں کیا کم خطرناک ہیں؟ پس قریب کے خطرہ کو چھوڑ کر دور کے خطرے کا اندیشہ کرنا کوئی عقلمندی کی بات نہیں ہے۔ جب آپ موبائل استعمال کرنا چاہتے ہیں تو اس کی بہتر کارکردگی کے لیے ٹاورز کا ہونا بھی لازمی ہے، اور ظاہر ہے جب غیرآباد علاقے آبادی سے بہت دور ہوجائیں گے تو ان ٹاورز کو آبادی میں ہی لگانا پڑے گا نا؟ موجودہ دور چونکہ ٹیکنالوجی کا دور ہے اور اب موبائل وغیرہ سے بچنا ناممکن ہے، چنانچہ ایک ضرورت کی تکمیل کے لیے کچھ تو خطرات مول لینے پڑیں گے۔ آج بہتر نیٹ ورک کی ضرورت کس کو نہیں ہے؟ اور دنیا کا اصول ہے کچھ پانے کے لئے کچھ کھونا پڑتا ہے۔

درج بالا تفصیلات سے معلوم ہوا کہ انٹرنیٹ کا استعمال صحیح اور غلط دونوں مقاصد کے لئے ہوتا ہے، لہٰذا صورتِ مسئولہ میں اپنے مکانات اور زمینوں پر ٹاور لگوانا اور اس کا کرایہ وصول کرنا جائز اور حلال ہے، اب اگر کوئی ٹاور سے استفادہ کرتے ہوئے بذریعہ انٹرنیٹ اس کا غلط استعمال کرے تو اس کا گناہ خود استعمال کرنے والے پر ہوگا، ٹاور لگوانے والے پر اس کا وبال نہ ہوگا۔

مزید تشفی کے لیے دارالعلوم دیوبند کا فتوی بھی ملاحظہ فرمالیں :
موبائل فون کالنگ اور بہ ذریعہ نیٹ موبائل فون یا لیپ ٹاپ وغیرہ کا استعمال جائز اور ناجائز دونوں ہے، ان کا صرف ناجائز استعمال متعین نہیں ہے، اس لیے گھر کی چھت پر یا پلاٹ میں موبائل فون ٹاور لگوانا جائز ہے اور اس سے حاصل ہونے والی آمدنی بھی جائز ہوگی۔ اور موبائل فون ٹاور کی وجہ سے نیٹ وغیرہ کا غلط استعمال، خود استعمال کرنے والے کے سر جائے گا، کرایہ پر ٹاور لگوانے والے کے ذمہ نہیں۔ (فتوی نمبر : 173835)

الأصل في الأشياء الإباحة حتى يدل الدليل على عدم الإباحة و هو مذهب الشافعي۔ (الاشباه و النظائر، ٢٩٩)

المختار أن الأصل في الإباحة عند جمهور أصحابنا۔ (غمز عيون البصائر على الاشباه و النظائر ص ٢٠٨ تحت قاعدة الأصل في الأشياء الإباحة)

إذا اجتمع المباشر والمتسبب أضیف الحکم إلی المباشر۔ (الأشباہ والنظائر : ۵۰۲)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
20 رجب المرجب 1441

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں