پیر، 30 مارچ، 2020

حالات کا فائدہ اٹھاکر زیادہ نفع کمانا

*حالات کا فائدہ اٹھاکر زیادہ نفع کمانا*

✍ محمد عامر عثمانی ملی

قارئین کرام ! وطنِ عزیز ہندوستان سمیت پوری دنیا کے اکثر ممالک میں لاک ڈاؤن چل رہا ہے، جس کی وجہ سے عوام الناس کے سامنے متعدد مسائل کھڑے ہوگئے ہیں، جن میں ایک اہم مسئلہ بعض تاجروں کا ضروریاتِ زندگی کی اشیاء کو مہنگا بلکہ من مانے داموں میں فروخت کرنا ہے۔ خود شہر عزیز مالیگاؤں میں کرانہ سامان اور سبزیوں کے دام میں بے تحاشہ اضافہ کیا جارہا ہے، جس کی وجہ سے بیروزگاری کی مار جھیل رہے مزدوروں بلکہ بعض مالداروں تک کی کمر ٹیڑھی ہوجانے کے آثار نظر آرہے ہیں۔ ایسے حالات میں ضروری ہے کہ ان تاجروں تک شرعی رہنمائی پہنچانے کی کوشش کی جائے تاکہ نصیحت قبول کرنے والے تاجر اس گناہ سے باز آکر اپنی دنیا وآخرت کو برباد ہونے سے بچالیں، اسی طرح ہٹ دھرمی کرنے والوں پر اتمام حجت بھی ہوجائے۔

محترم قارئین ! جس طرح ہمارے زمانہ میں بہت سے تاجر غلہ وغیرہ ضروریات زندگی کی ذخیرہ اندوزی کرکے مصنوعی قلت پیدا کر دیتے ہیں جس کے نتیجہ میں مہنگائی اور گرانی بڑھ جاتی ہے اور عام صارفین پر بوجھ پڑتا ہے اور ان کے لئے گذارا دشوار ہو جاتا ہے، اسی طرح رسول اللہﷺ کے زمانہ میں بھی کچھ تاجر ایسا کرتے تھے (اور غالباً اس کو کوئی مضائقہ نہیں سمجھتے تھے) لیکن رسول اللہﷺ نے اس کو سختی سے منع فرمایا اور گناہ قرار دیا۔ عربی زبان میں اس کو "احتکار" کہا جاتا ہے۔ اس عمل کی قباحت پر چند احادیث ملاحظہ فرمائیں :

حضرت معمر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا : جو تاجر احتکار کرے (یعنی غلہ وغیرہ ضروریات زندگی کا ذخیرہ عوام کی ضرورت کے باوجود مہنگائی کے لئے محفوظ رکھے) وہ خطاکار گنہگار ہے۔ (مسلم)

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : جوشخص کھانے پینے کی چیزیں ذخیرہ اندوزی کرکے مسلمانوں پر مہنگائی کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے جذام (کوڑھ) کے مرض اور محتاجی میں مبتلا کردیتا ہے۔ (ابن ماجہ)

ابن قدامہ المغنی کے باب الاحتکار میں روایت کرتے ہیں کہ : حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک دکاندار کو ذخیرہ اندوزی سے منع فرمایا اور ساتھ رسول اللہ ﷺ کا اس کام سے روکنا بھی واضح کیا لیکن وہ باز نہ آیا اور کوڑھی بن گیا۔

ایک روایت میں ہے کہ آپﷺ نے فرمایا : محتکر (یعنی مہنگائی کے لئے ذخیرہ اندوزی کرنے والا) ملعون ہے (یعنی اللہ کی طرف سے پھٹکارا ہوا اور اس کی رحمت و برکت سے محروم ہے) ۔ (ابن ماجہ، دارمی)

معزز قارئین ! رسول اللہﷺ کی تعلیم اور آپﷺ کی لائی ہوئی شریعت کا رُخ یہ ہے کہ معاشی نظام ایسا ہو جس میں عوام خاص کر غریبوں یعنی کم آمدنی والوں کو زندگی گذارنا دشوار نہ ہو، تجارت پیشہ اور دولت مند طبقہ زیادہ نفع اندوزی اور اپنی دولت میں اضافہ کے بجائے عوام کی سہولت کو پیش نظر رکھے اور اس مقصد کے لئے کم نفع پر قناعت کرکے اللہ کی رضا و رحمت اور آخرت کا اجر حاصل کرے۔ اگر ایمان و یقین نصیب ہو تو بلاشبہ یہ تجارت بڑی نفع بخش ہے۔

کبھی حالات کا تقاضا ہوتا ہے کہ غذا جیسی ضروری اشیاء کی قیمتوں پر حکومت کی طرف سے یا کسی بااختیار ادارہ کی طرف سے کنٹرول کیا جائے اور تاجروں کو من مانے طریقہ پر زیادہ نفع خوری کی اجازت نہ دی جائے، تاکہ عوام خاص کر غریبوں کو زیادہ تکلیف نہ پہنچے۔ اسی کو عربی زبان میں تسعیر کہا جاتا ہے۔ یہاں اسی سے متعلق رسول اللہﷺ کا ایک ارشاد درج کیا جا رہا ہے۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ کے زمانہ میں ایک دفعہ) مہنگائی بڑھ گئی، تو لوگوں نے حضورﷺ سے عرض کیا کہ آپ نرخ مقرر فرما دیں (اور تاجروں کو اس کا پابند کر دیں) تو آپﷺ نے فریاما : کہ نرخ کم و بیش کرنے والا اللہ تعالیٰ ہی ہے، وہی تنگی یا فراخی کرنے والا ہے، وہی سب کا روزی رساں ہے اور میں امید کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملوں کہ کوئی مجھ سے جان و مال کے ظلم اور حق تلفی کا مطالبہ کرنے والا نہ ہو۔ (جامع ترمذی، سنن ابی داؤد، سنن ابن ماجہ، مسند دارمی)

اس حدیث سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ آپﷺ نے بعض صحابہ کی طرف سے مہنگائی کی شکایت اور تسعیر (یعنی قیمتوں پر کنٹرول) کی درخواست کرنے کے باوجود اپنے لئے اس کو مناسب نہیں سمجھا اور اندیشہ ظاہر فرمایا کہ اس طرح کے حکم سے کسی پر زیادتی اور کسی کی حق تلفی نہ ہو جائے۔ یہاں یہ بات قابل لحاظ ہے کہ غلہ وغیرہ کی گرانی اور مہنگائی کبھی قحط اور پیداوار کی کمی جیسے قدرتی اسباب کی وجہ سے ہوتی ہے اور کبھی تاجر اور کاروباری لوگ زیادہ نفع کمانے کے لئے مصنوعی قلت کی صورت پیدا کر کے قیمتیں بڑھا دیتے ہیں۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کی اس حدیث میں حضورﷺ کا جو جواب ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت کی گرانی قدرتی اسباب کی پیدا کی ہوئی تھی، تاجروں کی نفع اندوزی کا اس میں دخل نہیں تھا اس لئے آپﷺ نے کنٹرول نافذ کرنا مناسب نہیں سمجھا اور آپﷺ کو خطرہ ہوا کہ تاجروں پر زیادتی نہ ہو جائے۔ اس سے یہ بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ اگر حاکمِ وقت یقین کے ساتھ محسوس کرے کہ تاجروں کی طرف سے عام لوگوں پر زیادتی ہو رہی ہے اور افہام تفہیم اور نصیحت سے تاجر اپنے رویہ کی اصلاح نہیں کرتے تو وہ قیمتیں مقرر کرکے کنٹرول نافذ کرسکتا ہے۔ بقول حضرت شاہ ولی اللہؒ تاجروں کو ظالمانہ نفع اندوزی کی چھوٹ دینا تو فساد فى الارض اور اللہ کی مخلوق پر تباہی لانا ہے۔ (حجۃ اللہ البالغہ)

امام مالک نے مؤطا میں حضرت سعید بن المسیب تابعی کی روایت سے نقل کیا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مدینہ کے بازار میں حاطب بن ابی بلتعہ صحابی رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ وہ خشک انگور (یعنی منقی) ایسے نرخ پر فروخت کر رہے ہیں جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے نزدیک نامناسب حد تک گراں ہے، تو آپ نے ان سے فرمایا : إِمَّا أَنْ تَزِيدَ فِي السِّعْرِ، وَإِمَّا أَنْ تَرْفَعَ مِنْ سُوقِنَا۔ یا تو تم بھاؤ بڑھاؤ (یعنی قیمت مناسب حد تک کم کرو) یا پھر اپنا مال ہمارے بازار سے اُٹھا لو۔ (جمع الفوائد : ۶۶۲/ ۱)

شریعت کے عام قواعد اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس اثر ہی کی روشنی میں علماء محققین نے یہ رائے قائم کی ہے کہ اگر حالات کا تقاضا ہو تو عوام کو تاجروں کے استحصال سے بچانے کے لئے حکومت کی طرف سے ضروری اشیاء کی قیمتیں مقرر کر دینی چاہئیں اور کنٹرول نافذ کر دینا چاہئے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے بھی اپنے بعض رسائل میں یہی رائے ظاہر کی ہے۔ (مستفاد : معارف الحدیث)

موجودہ حالات میں اگر تاجر حضرات اپنی اس ظالمانہ روش سے باز نہ آرہے ہوں تو حکومت کو اس معاملہ میں مداخلت کرنا چاہیے اور اس پر قابو پانے کی ہر ممکن کوشش کرنا چاہیے کہ یہ ان کا فرضِ منصبی ہے۔ شہر عزیز کے لیے یہ بات بڑی خوش آئند ہے کہ اس سلسلے میں شہری انتظامیہ نے دلچسپی دکھائی ہے، امید ہے کہ اس پر کماحقہ کارروائی کرکے اس ظلم کا سدباب کیا جائے گا۔

نوٹ : بعض تاجروں کا یہ کہنا ہے کہ ہمیں اوپر سے ہی زیادہ قیمت پر مال مل رہا ہے تو ہم اسی کے حساب سے فروخت کررہے ہیں، اگر واقعتاً ایسا ہی ہے تو اس میں ان پر کوئی گناہ نہیں۔ لیکن اگر وہ جھوٹ بول رہے ہیں یا حالات کا فائدہ اٹھاکر عموماً لیے جانے والے نفع کی مقدار میں اضافہ کرکے فروخت کررہے ہیں تب تو وہ احتکار کے ساتھ جھوٹ جیسے گناہ عظیم کے بھی مستحق ہورہے ہیں جو ایک مومن کی شان کے بالکل خلاف ہے۔

اللہ تعالٰی ہم سب کی مطلب اور موقع پرستی سے حفاظت فرمائے، ایثار وقربانی اور قناعت کا جذبہ ہم سب میں پروان چڑھائے۔ آمین یا رب العالمین

1 تبصرہ: