پیر، 23 مارچ، 2020

قنوت نازلہ کتنے دنوں تک پڑھی جائے؟

*قنوت نازلہ کتنے دنوں تک پڑھی جائے؟*

سوال :

قنوت نازلہ کے بارے میں اس بات کی تفصیل با حوالہ بتائیں کہ ایک مرتبہ کسی خاص واقعہ کے ضمن میں قنوت نازلہ شروع کرنے کے بعد کتنے دنوں تک پڑھنا چائیے؟ اس کی کوئی مقدار ہے یا نہیں؟
(المستفتی : عبداللہ، مالیگاؤں)
-------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : احناف کے نزدیک سخت ترین مصائب و حالات کے وقت قنوتِ نازلہ پڑھنا مشروع ومسنون ہے۔ البتہ قنوتِ نازلہ شروع کرنے کے بعد کتنے دنوں تک اس کا اہتمام کیا جائے؟ اس سلسلے میں کوئی صریح جزئیہ باوجود تلاش کے نہیں مل سکا۔

علامہ اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
میں مدت سے خود اس مسئلہ کی تلاش میں تھا کہ قنوت نازلہ اگر پڑھے تو کب تک پڑھا کرے بہت سے علماء سے دریافت کیا، کسی نے شافی جواب نہیں دیا۔ اب الحمدللہ حدیث سے سمجھ میں آگیا کہ حضور ﷺ سے ایک ماہ سے زائد منقول نہیں، حالانکہ حوادث بعد میں بھی باقی رہے۔ رہا یہ شبہ کہ جب حوادث رفع نہ ہوں تو دعا کیسے منقطع کردی جائے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ایک ہی مہینہ تک پڑھنے کی برکت سے ان شاء اللہ تعالیٰ رحمت ہوجائے گی، نیز عقلاً اس کو اس طرح سمجھ لیا جائے کہ اگر کسی پر کوئی حادثہ آجائے تو کیا جب تک وہ حادثہ رہے برابر ہاتھ پھیلائے بیٹھا رہے یہ تکلیف مالا یطاق کیسے ہوسکتی ہے؟ آخر انقطاع گو اوقات خاصہ کے لئے یہاں بھی پایا گیا تو نفس انقطاع کی مشروعیت ثابت ہوگئی باقی ویسے مثل دوسری دعاؤں کے دعا کرتے رہنا مسنون ہے کلام دعا بضمن قنوت میں ہے۔ (الاضافات الیومیہ : ۴/۱۲۹/اشرف الاحکام ص :۱۰۱)

صاحبِ اعلاء السنن علامہ ظفراحمد عثمانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :
مناسب ہے کہ قنوت نازلہ اتنی ہی مدت تک پڑھی جائے جتنا حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے ثابت ہے اور وہ ایک مہینہ ہے جیساکہ حضرت انس ؓ سے روایت ہے۔
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَنَتَ شَهْرًا ثُمَّ تَرَكَهُ۔ (ابوداؤد)
ترجمہ : آپ ﷺ نے ایک ماہ تک قنوت نازلہ پڑھی پھر چھوڑ دی۔

خلاصہ یہ کہ ایک مرتبہ کسی خاص واقعہ کے ضمن میں قنوتِ نازلہ شروع کرنے کے بعد مناسب اور اقرب الی السنہ یہی ہے کہ ایک مہینہ پڑھ کر ترک کردی جائے۔ اس کے بعد نمازوں کے بعد اور دیگر اوقات کی دعاؤں میں اس کا اہتمام کیا جائے۔

قلت و فیہ بیان غایۃ القنوت للنازلۃ أنہ ینبغی أن یقنت أیاماً معلومۃً عن النبیا، وھی قدرُ شھرٍ، کما فی الروایات عن أنسؓ: ’’أنہ قنَت شھراً ثم ترک‘‘ فاحفظْہ فھذا غایۃُ اتباع السنۃ النبویۃ ۔  (إعلاء السنن، أحکام القنوت النازلۃ، 6/118، کراچی)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
27 رجب المرجب 1441

3 تبصرے:

  1. عن ابن عباس رضی اللہ عنہ قال: قنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شھرا متتابعا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ابوداؤد ۲۷۱

    جواب دیںحذف کریں
  2. آپ کے جواب سے تشفی ہوئی۔جزاک اللہ خیر

    جواب دیںحذف کریں
  3. جزاکم اللہ خیرا واحسن الجزاء

    جواب دیںحذف کریں