اتوار، 29 مارچ، 2020

رمضان سے پہلے صدقۂ فطر ادا کرنا

*رمضان سے پہلے صدقۂ فطر ادا کرنا*

سوال :

ابھی حالات کے اعتبار سے صدقۃ الفطر جو عید سے پہلے دیا جاتا ہے کیا وہ ابھی کسی غریب کو دے سکتے ہیں؟
(المستفتی : صغير احمد، جلگاؤں)
------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : صدقہ فطر رمضان المبارک سے پہلے ادا کرنے کے مسئلہ میں فقہاء کے مابین اختلاف ہے۔

بعض فقہاء کے نزدیک صدقۂ فطر رمضان المبارک کے مہینے میں کسی بھی دن دینا جائز ہے، البتہ رمضان سے پہلے ادا کرنا درست نہ ہوگا، جبکہ دیگر فقہاء کے نزدیک صدقۂ فطر کا حکم بھی زکوٰۃ کی طرح ہے یعنی چاہے رمضان میں ادا کیا جائے یا رمضان سے پہلے ادا کیا جائے دونوں صورتوں میں صدقۂ فطر ادا ہوجائے گا۔

احتیاطی پہلو تو یہی ہے کہ رمضان المبارک سے پہلے صدقہ فطر ادا نہ کیا جائے، کیونکہ عبادات میں احتیاط کو پیشِ نظر رکھا جاتا ہے، لیکن موجودہ لاک ڈاؤن کے حالات میں جبکہ بیروزگاری کی وجہ سے بھکمری کے حالات پیدا ہونے کا اندیشہ ہے، لہٰذا رمضان المبارک سے پہلے بھی صدقہ فطر ادا کیا جاسکتا ہے، نیز دارالعلوم دیوبند کا فتوی بھی اس کے جواز پر موجود ہے :
راجح قول کے مطابق ماہِ رمضان شروع ہونے سے پہلے بھی صدقة الفطر ادا کیا جا سکتا ہے اور واجب ذمہ سے ساقط ہو جائے گا۔

قال العلامة الحصکفي : وصحّ أدائہا إذا قدّمہ علی یوم الفطر أو أخرہ اعتباراً بالزکاة ، ․․․․․ بشرط دخول رمضان في الأول ہو الصحیح وبہ یفتي جوہر وبحر عن الظہیریة ؛ لکن عامة المتون والشروح علی صحة التقدیم مطلقاً وصححہ غیر واحد ورجّحہ فی النہر، ونقل عن الولوالجیة أنہ ظاہر الراویة، قلت : فکان ہو المذہب ۔ الدر المختار ، کتاب الزکاة ، باب صدقة الفظر، ۳/۳۲۲، زکریا دیوبند/فتوی نمبر :16936)

ملحوظ رہے کہ فی زمانہ نصف صاع  گیہوں کے اعتبار سے ایک صدقۂ فطر کی مقدار بہت معمولی ہوتی ہے، جو بڑے مال داروں کے لئے کوئی حیثیت اور وقعت نہیں رکھتی، اس لئے ایسے لکھ پتی اور کروڑ پتی سرمایہ دار حضرات کے لیے بہتر یہ ہے کہ وہ زیادہ ثواب حاصل کرنے کے لئے نصف صاع (پونے دو کلو) گیہوں کی قیمت لگانے کے بجائے ایک صاع (تین کلو ڈیڑھ سو گرام) کھجور یا کشمش کے حساب سے صدقہ فطر ادا کریں، جبکہ موجودہ حالات میں اس کی زیادہ ضرورت ہے۔ ایک روایت میں آتا ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بصرہ میں خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ : پیغمبر علیہ السلام نے ایک صاع کھجور یا جو یاآدھا صاع گیہوں کا صدقہ ضروری قرار دیا ہے، جو ہر آزاد، غلام، مرد، عورت، چھوٹے اور بڑے پر لازم ہے، لیکن جب حضرت علی کرم اللہ وجہہ وہاں تشریف لائے اور یہ دیکھاکہ گیہوں کا بازاری بھاؤ سستا ہے تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالی نے تمہارے اوپر وسعت فرمائی ہے، اس لئے اگر تم صدقۂ فطر ہر چیز کا ایک صاع کے حساب سے نکالو تو زیادہ بہتر ہے۔ (ابوداؤد، حدیث : ۱۶۲۲)

قولہ صاعاً من کل شیئٍ ای من الحنطۃ وغیرہا لکان احسن۔ (بذل المجہود : ۶؍۴۵۴)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
04 شعبان المعظم 1441

2 تبصرے: