منگل، 3 مارچ، 2020

اتی کرمن کی جگہ خرید وفروخت کرنے اور اس پر کاروبار کا حکم

*اتی کرمن کی جگہ خرید وفروخت کرنے اور اس پر کاروبار کا حکم*

سوال :

کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کہ شہر کی ایک اہم شاہراہ کے کنارے اور سڑک کے بیچ کے حصہ میں کچھ لوگوں نے جگہ پر قبضہ کرلیا ہے جوکہ اتی کرمن ہے اور وہاں وہ لوگ کافی پہلے سے اپنا کاروبار کررہے ہیں اور ان میں سے کچھ لوگ اس جگہ کو فروخت کر دیتے ہیں اور پھر کوئی دوسرا شخص اس جگہ کو خرید لیتا ہے اور پھر وہ شخص وہاں پر اپنا کاروبار کرتا ہے تو کیا ایسی جگہ کی خرید و فروخت یا ایسی جگہ کو خرید کر اس پر کاروبار کرنا درست ہے؟ اور اس کی کمائی کیسی ہوگی؟ رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : رئیس عثمانی، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : سڑکیں لوگوں کے گذرنے کے لیے اور سرکاری ملکیت میں ہوتی ہیں، لہٰذا ان پر قبضہ کرلینا بدتہذیبی اور شرعاً ناجائز عمل ہے۔ نیز اس جگہ قبضہ کرکے کاروبار کرنے کی وجہ سے راہ گیروں کو تکلیف ہوتی ہوتو ایذائے مسلم جیسے کبیرہ گناہ کا ارتکاب بھی لازم آئے گا۔ لہٰذا مسلمانوں کے لیے اس غیرمہذب اور غیرشرعی عمل سے اجتناب ضروری ہے۔

جب یہ سڑک قبضہ کرنے والوں کی ملکیت ہی نہیں ہے تو اس کا فروخت کرنا بھی ان کے لیے ناجائز اور حرام ہے، یہ قیمت فروخت کرنے والوں کے لیے حلال نہ ہوگی۔ اگر کسی نے اتی کرمن کی زمین فروخت کرکے اس کی قیمت استعمال کرلی ہے تو اسے جان لینا چاہیے کہ حرام  روزی کھانے سے عبادات اور دعائیں قبول نہیں ہوتیں، مطلب یہ کہ اس کے ذمہ سے نماز کا فریضہ تو ساقط ہوجاتا ہے اور نمازوں کو دوہرانے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسےشخص کی عبادت مستحقِ انعام نہیں ہوتی اور اللہ تعالیٰ اس سے ناراض رہتے ہیں، البتہ اگر یہ شخص اپنے اس عمل پر شرمندہ ہو اور سچی پکی توبہ کرلے اور جس کا مال لیا ہے اسے واپس کردے یا حرام کمائی صدقہ کردے تو اس کے لئے مذکورہ وعید ختم ہوجائے گی، اور آئندہ اس کی نماز ودعا انشاء اﷲ قابلِ قبول اور مستحق انعام ہوگی۔

اسی طرح ایسی زمین کا خریدنا بھی جائز نہیں ہے، خریدنے والا اس کی قیمت ناجائز قبضہ کرنے والے کو ادا کردے تب بھی یہ جگہ شرعاً اس کی ملکیت میں نہیں آئے گی۔ نیز راہگیروں کی تکلیف کا سبب بنتے ہوئے اس جگہ کاروبار کرنے کی وجہ سے سخت گناہ گار ہوگا۔ تاہم اگر وہ حلال مال کی شرعی اصولوں کے مطابق تجارت کرتا ہوتو اس کی کمائی کو حرام نہیں کہا جائے گا۔

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " الْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ النَّاسُ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ، وَالْمُؤْمِنُ مَنْ أَمِنَهُ النَّاسُ عَلَى دِمَائِهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ۔ (سنن النسائي، رقم : ۴۹۹۵)

اخرج الیٰ طریق العامۃ کنیفاً او میزاباً الیٰ قولہ … لودکانا جاز احداثہ ان لم یضر بالعامۃ فان ضرلم یحل۔ (تنویر الابصار مع الدرالمختار، کتاب الجنایات : ۶/۵۹۲)

عن أبي هريرة : مَن اشترى سَرِقَةً، وهو يعلمُ أنها سَرِقَةٌ، فقد شارك في عارِها وإِثْمِها۔ (الجامع الصغير، رقم : ٨٤٢٤)

وبطل بیع  ما لیس فی ملکہ ۔۔۔۔ و حکمہ عدم ملک المشتری۔ ( الدر المختار مع الرد، باب بیع الفاسد، ۵/ ۵۸ - ۵۹)

إنْ كَانَ السَّارِقُ قَدْ مَلَّكَ الْمَسْرُوقَ رَجُلًا بِبَيْعٍ أَوْ هِبَةٍ، أَوْ صَدَقَةٍ، (الیٰ قولہ) فَلِصَاحِبِهِ أَنْ يَأْخُذَهُ؛ لِأَنَّهُ مِلْكُهُ، إذْ السَّرِقَةُ لَا تُوجِبُ زَوَالَ الْمِلْكِ عَنْ الْعَيْنِ الْمَسْرُوقَةِ، فَكَانَ تَمْلِيكُ السَّارِقِ بَاطِلًا۔ (بدائع الصنائع : ٧/٨٩)

ورُوِيَ عَن ابْن عَبّاس قالَ تليت هَذِه الآيَة عِنْد رَسُول الله ﷺ يا أيها النّاس كلوا مِمّا فِي الأرْض حَلالا طيبا۔ (البَقَرَة ٨٦١)
فَقامَ سعد بن أبي وَقاص  فَقالَ يا رَسُول الله ادْع الله أن يَجْعَلنِي مستجاب الدعْوَة فَقالَ لَهُ النَّبِي ﷺ يا سعد أطب مطعمك تكن مستجاب الدعْوَة والَّذِي نفس مُحَمَّد بِيَدِهِ إن العَبْد ليقذف اللُّقْمَة الحَرام فِي جَوْفه ما يتَقَبَّل مِنهُ عمل أرْبَعِينَ يَوْمًا وأيّما عبد نبت لَحْمه من سحت فالنّار أولى بِهِ۔ (الترغیب والترھیب : ٢٦٦٤)

قال تعالیٰ : اِنَّ اللّٰہَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا اِنَّہٗ ہُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ۔ (سورۃ الزمر: ۵۳)

عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " التَّائِبُ مِنَ الذَّنْبِ، كَمَنْ لَا ذَنْبَ لَهُ۔ (سنن ابن ماجۃ، رقم : ٤٢٥٠)

وَيَرُدُّونَهَا عَلَى أَرْبَابِهَا إنْ عَرَفُوهُمْ، وَإِلَّا تَصَدَّقُوا بِهَا لِأَنَّ سَبِيلَ الْكَسْبِ الْخَبِيثِ التَّصَدُّقُ إذَا تَعَذَّرَ الرَّدُّ عَلَى صَاحِبِهِ۔ (شامی : ٩/٣٨٥)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
07 رجب المرجب 1441

9 تبصرے:

  1. بالکل صحیح فرمایا
    خاص طور ہمارے اپنے شہر مالیگاوں میں اس مسئلہ کوتمام دوکانداروں تک پہنچانا چاھئے اللہ تعالی سب کو عمل کی توفیق عطاء فرمائے

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. اگر آپ اسے اخبار والوں تک یا شوشل میڈیا کے ذریعے عام کرنے میں معاون بن جائے تو بہت بڑی خیر کی بات ہوگی

      حذف کریں
  2. مالیگاٶں میں تو زیادہ تر لوگ سڑکوں پر آنے جانے والوں کے لئے وبالِ جان بنے ہوئے ہیں

    جواب دیںحذف کریں
  3. سب کو سمجھتا ھے عمل کوئ کرنا نھیں۔چاھتا یہ قوم صرف مار سے سدھرے گی

    جواب دیںحذف کریں
  4. اور اگر کسی نے لاعلمی میں ایسی اتی کرمن والی زمین خرید لی تو وہ کیا کرے؟ بیچے؟ وہیں رہے؟ استعمال کرے؟ کرائے سے دے؟ چھوڑ کر ہٹ جائے؟

    جواب دیںحذف کریں
  5. جس کا پہلے قبضہ تھا، اسے واپس کرکے اپنی رقم واپس لے لے۔

    واللہ تعالٰی اعلم

    جواب دیںحذف کریں
  6. جنم دن منانے والوں کے بارے میں فتوا

    جواب دیںحذف کریں