بدھ، 11 مارچ، 2020

حمل ضائع کرنے کی ایک صورت کا حکم

*حمل ضائع کرنے کی ایک صورت کا حکم*

سوال :

زید کی بیوی کا انتقال ہوگیا ہے اب زید نے دوسری شادی کر لی ہے اور حمل ٹھہر گیا ہے اور زید اس کو گرانے کی بات کر رہا ہے اور اس کی وجہ یہ بتائی کہ پہلی بیوی سے اس کو دو بچے ہیں اور ایک کی عمر دو سال اور دوسرے کی نو سال ہے اور زید کا کہنا ہے کہ دونوں بچوں سے دوسری والدہ کو اچھی طرح محبت پیدا ہو جائے اس لیے وہ حمل گرانا چاہتا ہے تو کیا اس کا یہ عمل درست ہے یا نہیں؟ رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : لئیق احمد، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : اِسقاطِ حمل اَصل میں منع ہے، البتہ ایسی سنگین صورت پیش آجائے کہ اِسقاط کے بغیر چارہ نہ رہے، مثلاً عورت کا دودھ پیتا بچہ ہو اورحمل کی وجہ سے دودھ اُترنا بند ہوجائے، یا حمل کی وجہ سے عورت کی صحت کو سخت خطرہ لاحق ہو تو حمل میں جان پڑنے یعنی ایک سو بیس دن گذرنے سے پہلے تک اِسقاط کی گنجائش ہے۔

سوال نامہ میں اسقاط کے لیے جو وجہ بیان کی گئی ہے اگر صرف یہی وجہ ہے تو یہ شرعاً عذر نہیں ہے، لہٰذا ایک سو بیس دن نہ گذرے ہوں تب بھی اِسقاط کی گنجائش نہ ہوگی، چنانچہ زید کو اس گناہ سے باز رہنا چاہیے اور اسے یہ بات بھی پیشِ نظر رکھنا چاہیے کہ دوسری بیوی کو پہلی بیوی کے بچوں سے محبت کا ایک سبب بچے کی ولادت بھی ہوگی، کیونکہ جب وہ ولادت کی تکلیف سے گذرے گی تو قوی امید ہے کہ اسے اپنے بچے کے ساتھ شوہر کی پہلی بیوی کے بچوں سے بھی محبت ہوجائے گی۔ ان شاء اللہ

الْعِلَاجُ لِإِسْقَاطِ الْوَلَدِ إذَا اسْتَبَانَ خَلْقُهُ كَالشَّعْرِ وَالظُّفْرِ وَنَحْوِهِمَا لَا يَجُوزُ وَإِنْ كَانَ غَيْرَ مُسْتَبِينِ الْخَلْقِ يَجُوزُ وَأَمَّا فِي زَمَانِنَا يَجُوزُ عَلَى كُلِّ حَالٍ وَعَلَيْهِ الْفَتْوَى كَذَا فِي جَوَاهِرِ الْأَخْلَاطِيِّ۔

امْرَأَةٌ مُرْضِعَةٌ ظَهَرَ بِهَا حَبَلٌ وَانْقَطَعَ لَبَنُهَا وَتَخَافُ عَلَى وَلَدِهَا الْهَلَاكَ وَلَيْسَ لِأَبِي هَذَا الْوَلَدِ سَعَةٌ حَتَّى يَسْتَأْجِرَ الظِّئْرَ يُبَاحُ لَهَا أَنْ تُعَالِجَ فِي اسْتِنْزَالِ الدَّمِ مَا دَامَ نُطْفَةً أَوْ مُضْغَةً أَوْ عَلَقَةً لَمْ يُخْلَقْ لَهُ عُضْوٌ وَخَلْقُهُ لَا يَسْتَبِينُ إلَّا بَعْدَ مِائَةٍ وَعِشْرِينَ يَوْمًا أَرْبَعُونَ نُطْفَةً وَأَرْبَعُونَ عَلَقَةً وَأَرْبَعُونَ مُضْغَةً كَذَا فِي خِزَانَةِ الْمُفْتِينَ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ٥/٣٥٦)

وَقَالُوا يُبَاحُ إسْقَاطُ الْوَلَدِ قَبْلَ أَرْبَعَةِ أَشْهُرٍ وَلَوْ بِلَا إذْنِ الزَّوْجِ۔ (شامی : ٣/١٧٦)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
15 رجب المرجب 1441

4 تبصرے:

  1. بچے کی ولادت سے زید کے بچوں سے محبت ھو ھی نھی سکتی.

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. ہر جگہ کا ماحول آپ کے گھر جیسا نہیں ہوتا۔ اس لیے مطلق یہ بات نہ کریں۔ اللہ تعالٰی کس کے دل میں رحم ڈال دیں یہ ہم اور آپ نہیں کہہ سکتے۔

      حذف کریں
  2. Assalamu alaikum hazrat mera ek sawal ye hai ke miya biwi Marne ke baad jannat me dobara milege ye to ham sab jaante hai lekin agar kisi waja se dono ka talak ho jaye aur shohar doosra nikah kar le to jannat me uske saath konsi biwi hogi pahli ya doosri agar doosri to pahli ka kya hoga aur agar pahli milegi to doosri ka kya jawab de kar shukriya ka maoka inayat formate.

    جواب دیںحذف کریں