اتوار، 1 مارچ، 2020

وقت سے پہلے اذان دینے کا حکم

*وقت سے پہلے اذان دینے کا حکم*

سوال :

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کی بارے میں
ابھی ہمارے شہر میں عصر کی نماز کا وقت دائمی تقویم کے اعتبار سے  پانچ بجکر تین منٹ 5:03 پر ہے لیکن ہماری مسجد میں اذان پانچ بجے ہو رہی ہے کیا اذان صحیح ہو جائے گی یا نہیں؟ کیا وقت سے پہلے اذان دینا درست ہے؟ مکمل و مدلل جواب دیجیئے۔
(المستفتی : صغیر احمد، مالیگاؤں)
-------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : وقت سے پہلے اذان دینا درست نہیں ہے، اگر کسی نے غلطی سے یا قصداً وقت سے پہلے اذان دے دی تو وقت ہونے پر دوبارہ اذان دی جائے گی۔ اگر اذان لوٹائے بغير نماز پڑھ لی گئی تو نماز ہوجائے گی، اور ایسے لوگ ترک سنت کے گناہ گار ہوں گے، اس لئے کہ اذان باجماعت نماز کے لیے سنت مؤکدہ ہے، شرط نہیں۔

صورتِ مسئولہ میں چونکہ تین منٹ پہلے اذان شروع ہوئی اور قوی امید ہے کہ اذان دیتے ہوئے وقت کے اندر دخول ہوگیا ہو، لہٰذا اذان تو ہوگئی، تاہم یہ عمل بھی احتیاط کے سخت خلاف ہے جس سے اجتناب لازم ہے۔ لیکن اگر وقت سے پہلے ہی اذان مکمل ہوگئی ہوتو اس کا اعادہ ہونا چاہیے ورنہ مؤذن صاحب گناہ گار ہوں گے۔

وَإِنْ أَذَّنَ قَبْلَ دُخُولِ الْوَقْتِ لَمْ يُجْزِهِ وَيُعِيدُهُ فِي الْوَقْتِ) لِأَنَّ الْمَقْصُودَ مِنْ الْأَذَانِ إعْلَامُ النَّاسِ بِدُخُولِ الْوَقْتِ فَقَبْلَ الْوَقْتِ يَكُونُ تَجْهِيلًا لَا إعْلَامًا۔ (المبسوط للسرخسي، ۱/۲۷۸، باب الأذان)

 لِأَنَّهُ سُنَّةٌ  لِلصَّلَاةِ۔ (الدر المختار مع رد المحتار : ۱؍۳۸۴، کتاب الصلاۃ، باب الأذان)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامرعثمانی ملی
05 رجب المرجب 1441

2 تبصرے: