پیر، 2 مارچ، 2020

زکوٰۃ میں پیسے کے علاوہ دیگر اشیاء دینا

*زکوٰۃ میں پیسے کے علاوہ دیگر اشیاء دینا*

سوال :

جناب مفتی صاحب ! مسئلہ کچھ یوں ہے کہ زید نے کاروبار کے لئے کچھ کپڑے خریدے، لیکن کچھ وجوہات کی بناء پر پورے کپڑے نہیں فروخت کر سکا۔ اب اس کی رقم جو کپڑوں کی شکل میں موجود ہے۔ کیا وہ ان کپڑوں کی ایک رقم مختص کرکے اسے زکوٰۃ میں دے سکتا ہے؟
(المستفتی : شکیل احمد، مالیگاؤں)
-------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : فقہاء کرام نے زکوٰۃ کی ادائیگی کیلئے یہ اصول لکھا ہے کہ ہر ایسا مال جو متقوم ہو یعنی کچھ نہ کچھ قیمت رکھتا ہو، اس سے زکوٰۃ ادا کرنا جائز ہے اور اس کی قیمت کے بقدر زکوٰۃ ادا ہوجائے گی البتہ ایسی چیز جو ردی ہو، اور انسان اس کے استعمال کو ناپسند کرتا ہو مثلاً پُرانے جوتے کپڑے وغیرہ زکوٰۃ میں ادا کرنا مکروہ ہے۔ قرآن وحدیث میں بہترین مال سے صدقہ کرنے کی ترغیب دی گئی ہے اور گھٹیا مال سے صدقہ کرنے کو ناپسند قرار دیا گیا ہے۔

چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
یَا اَیُّھَا الَّذِیْنَ آٰمَنُوْا اَنْفِقُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَاکَسَبْتُمْ ۔۔۔ وَلَا تَیَمَّمُو الْخَبِیْثَ مِنْہُ۔
ترجمہ : اے ایمان والو! اپنی بہترین کمائی میں سے خرچ کرو،  گھٹیا چیز کا ارادہ نہ کرو۔

اور ایک دوسری جگہ ارشاد ہے :

لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّیٰ تُنْفِقُوْمِمَّا تُحِبُّوْنَ۔
ترجمہ: تم نیکی کے کامل درجہ کو نہیں پہنچ سکتے جب تک تم اپنا محبوب مال خرچ نہ کرو۔

درج بالا آیات سے معلوم ہوا کہ زکوٰۃ کی ادائیگی اپنے بہترین مال سے کرنی چاہیے۔ لہٰذا مسئولہ صورت میں چونکہ کپڑے استعمال شدہ نہیں ہیں بلکہ نئے ہیں، لہٰذا ان کا زکوٰۃ میں دینا بلاکراہت درست ہے۔ ان کپڑوں کی بازاری قیمت کا اعتبار کرکے اتنی رقم زکوٰۃ کے مال سے الگ کرلی جائے۔

لمافی القرآن الکریم ( آل عمران) : لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ الخ۔

( البقرة : ۲۶۷): يَا أَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوا أَنْفِقُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا كَسَبْتُمْ وَمِمَّا أَخْرَجْنَا لَكُمْ مِنَ الْأَرْضِ وَلَا تَيَمَّمُوْا الْخَبِيثَ مِنْهُ تُنْفِقُونَ وَلَسْتُمْ بِآخِذِيْهِ إِلَّا أَنْ تُغْمِضُوْا فِيهِ وَاعْلَمُوْا أَنَّ اللهَ غَنِيٌّ حَمِيدٌ۔

وفی التفسیر المظھری(۳۸۶/۱): (الّا ان تغمضوا فیہ) یعنی لو کان لاحد کم علی رجل حق فجاء ہ بھذا لم یاخذہ الا وھو یریٰ انّہ قد ترک حقّہ قال الحسن وقتادۃ لو وجد تموہ یباع فی السوق ما اخذ تموہ بسعر الجید۔ وروی عن البراء انّہ قال لو کان اھدی ذلک لکم ما اخذ تموہ الا استحیاء من صاحبہ وغیظا فکیف ترضون للّٰہ مالا ترضون لانفسکم ھذا اذ کان المال کلّہ جیّد فلیس لہ اعطاء الرّدی وان کان کلّ مالہ ردیا فلا باس باعطاء الرّدی۔

وفی البدائع الصنائع(۴۶۱/۲) : وامّا الذی یرجع الی المودّی فمنھا ان یکون مالاً متقوّما علی الاطلاق سواء کان منصوصاً علیہ اولا من جنس المال الذی وجبت فیہ الزکاۃ او من غیر جنسہ والاصل انّ کل مال یجوز التصدق بہ تطوعاً یجوز اداء الزکاۃ منہ ومالا فلا… غیر انّ المودّیٰ یعتبر فیہ القدر والصفۃ فی بعض الاموال وفی بعضھا القدر دون الصفۃ وفی بعضھا الصفۃ دون القدر… فان کان من السوائم فان ادّی المنصوص علیہ من الشّاۃ وغیرہ یراعی فیھا صفۃ الواجب وھو ان یکون وسطا فلا یجوز الرّدی الا علی طریق التقویم… وان کان من عروض التجارۃ فان ادّی من النصاب ربع عشرہ یجوز کیفما کان النصاب لانہ ادی الواجب بکمالہ وان ادّی من غیر النصاب فان کان من جنسہ یراعی فیہ صفۃ الواجب من الجیدو الوسط والرّدی ولوادّی الرّدیٔ مکان الجید والوسط لایجوز الا علی طریق التقویم بقدرہ وعلیہ التکمیل۔

وفی الفقہ الاسلامی(۱۹۷۶/۳): یشترط ان یکون المودّی مالاً متقوّما علی الاطلاق سواء أکان عند الحنفیۃ منصوصا علیہ ام لا من جنس المال الذی وجبت فیہ الزکاۃ ام من غیر جنسہ۔ویکرہ تعمد الصدقۃ بالردی لقول اﷲ تعالیٰ ولا تیمموالخبیث منہ تنفقون… ویستحب تعمد اجود مالہ واحبّہ الیہ لقولہ تعالیٰ لن تنالو البر حتی تنفقوا مما تحبّون۔
مستفاد : نجم الفتاویٰ)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
06 رجب المرجب 1441

4 تبصرے: