بدھ، 25 مارچ، 2020

وبائی مرض کے دفع کے لیے اذان دینا

*وبائی مرض کے دفع کے لیے اذان دینا*

سوال :

کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ھذا کے سلسلے میں کہ وبائی مرض کے دفع کے لیے چھت پر اذان کی برابر درخواست کرنا؟ اور لوگوں کا بیک وقت اذان دینا؟ اذان کے لئے خاص وقت مقرر کرنا کیسا ہے؟ درخواست ہے کہ جلد از جلد مذکورہ بالا سوالات کا جواب بالدلیل دیکر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں۔
(المستفتی : شمیم احمد)
-------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : نماز کے علاوہ بھی بعض مواقع پر فقہاء نے اذان دینے کا ذکر فرمایا ہے، مثلاً :

١) جو شخص غم زدہ ہو اس کے کان میں اذان دینے سے اس کا غم ہلکا ہوجاتا ہے۔

٢) جس شخص کو بیماری کے دورے پڑتے ہوں، اس کے لئے بھی اذان دینا مفید ہے۔

٣) جس شخص پر غصہ غالب ہوجائے تو اذان دینا اس کے غصہ کو ٹھنڈا کرنے میں معاون ہے ۔

٤) جو جانور بدک جائے یا جس انسان کے اخلاق بگڑجائیں اس پر بھی اذان دینا مفید ہے ۔

٥) جب دشمن کی فوج حملہ آور ہو، اُس وقت اذان دی جائے ۔ (فسادات کے موقع پر اذان کا بھی یہی حکم ہے)

٦) آگ پھیل جانے کے وقت ۔

٧) جو شخص جنگل میں راستہ بھٹک جائے وہ بھی اذان دے سکتا ہے ۔

ملحوظ رہنا چاہیے کہ مذکورہ اوقات میں اذان دینے کو مسنون نہیں کہا جائے گا اس لیے کہ یہ حکم نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے منقول نہیں ہے، بلکہ اسے مجربات کی قبیل سے کہا جائے گا، لہٰذا ان مواقع پر ضروری یا مسنون سمجھ کر اذان دینا درست نہ ہوگا۔

مفتی رشید احمد گنگوہی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
طاعون وباء وغیرہ امراض کے شیوع (پھیل جانے) کے وقت کوئی خاص نماز احادیث سے ثابت نہیں ہے، نہ اس وقت اذانیں کہنا کسی حدیث میں وارد ہوا ہے، اس لیے اذان کو یا نماز با جماعت کو ان موقعوں میں ثواب یا مسنون یا مستحب جاننا خلافِ واقع ہے۔ (فتاوی رشیدیہ : ١٧٤)

معلوم ہوا کہ احادیث میں وبائی مرض پھیل جانے کے وقت اذان کہنے کا کوئی ذکر نہیں ہے، نیز فقہاء کرام نے بھی اس موقع پر اذان کا ذکر نہیں کیا ہے۔ اسی طرح سوال نامہ میں جو قیود لگائی گئی ہیں اس کی وجہ سے قوی اندیشہ ہے کہ عوام اسے شریعت کا حکم سمجھ کر انجام دیں گے، لہٰذا جس چیز کا ذکر احادیث اور فقہاء کرام کے اقوال میں نہ ہو، جس پر امت کا کبھی عمل بھی نہ رہا ہو اور اس بات کا قوی امکان ہو کہ اسے شریعت کا حکم سمجھا جانے لگے گا، اسے کیسے درست کہا جاسکتا ہے؟ لہٰذا اس عمل سے احتراز کرتے ہوئے مسنون دعاؤں اور اذکار پر عمل کرنا چاہیے جو بہرصورت مؤثر اور اجر وثواب کے اعتبار سے بھی زیادہ نافع ہوں گے۔

وفي حاشیۃ البحر للخیر الرملي : رأیت في کتب الشافعیۃ أنہ قد یسن الأذان لغیر الصلاۃ، کما في أذن المولود، والمہموم، والمصروع، والغضبان، ومن ساء خلقہ من إنسان أو بہیمۃ، وعند مزدحم الجیش، وعند الحریق، قیل : وعند إنزال المیت القبر قیاساً علی أول خروجہ للدنیا، لکن ردہ ابن حجر في شرح العباب، وعند تغول الغیلان: أي عند تمرد الجن لخیر صحیح فیہ۔ أقول: ولا بعد فیہ عندنا۔ (شامي ۲؍۵۰ زکریا، ۱؍۳۸۵ کراچی، منحۃ الخالق ۱؍۲۵۶ کوئٹہ)

وکذا یندب الأذان وقت الحریق و وقت الحرب، وخلف المسافر، وفي أذن المہموم والمصروع۔ (الفقہ علی المذاہب الأربعہ مکمل ۱۹۴ بیروت)
مستفاد : کتاب النوازل)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
29 رجب المرجب 1441

9 تبصرے: