منگل، 31 مارچ، 2020

گلیوں کو بند کرنے والے خدارا باز آجائیں

*گلیوں کو بند کرنے والے خدارا باز آجائیں*

✍ محمد عامر عثمانی ملی

قارئین کرام ! مذہب اسلام ایک ایسے سماج اور معاشرے کا تقاضہ کرتا ہے جس میں مسلمان آپس میں اخوت، محبت، ہمدردی، غمخواری اور حسنِ سلوک کے ساتھ رہیں۔ ایک مسلمان سے دوسرے مسلمان، حتی کہ غیرمسلم کو بھی کوئی ایذا اور تکلیف نہ پہنچے۔ بلکہ احادیث مبارکہ میں تو یہاں تک تعلیم دی گئی ہے کہ راستے میں اگر کوئی تکلیف دِہ چیز پڑی ہو تو اس کو ہٹا دیا جائے، جسے صدقہ اور ایمان کا حصہ تک کہا گیا ہے۔ (بخاری ومسلم)

ایک روایت میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان منقول ہے کہ ایک شخص صرف اس بنیاد پر جنت میں چلا گیا کہ اس نے راستہ میں موجود درخت کو کاٹ کر ہٹا دیا تھا جس سے لوگوں کو دشواری ہوتی تھی۔ (مسلم)

ایک جگہ ملتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک شخص نے کوئی اچھا کام نہیں کیا سوائے اس کے کہ کانٹوں بھری ٹہنی کو ہٹایا جو راستے پر تھی، یا درخت پر تو اس عمل پر اللہ نے اسے جنت میں داخل کردیا۔(ابوداؤد)

ذکر کردہ احادیث سے معلوم ہوا کہ راستہ سے تکلیف دہ چیزوں کا ہٹادینا کوئی عام نیکی نہیں ہے، بلکہ یہ ایسا عظیم کارِ خیر ہے جو آدمی کی مغفرت کے لیے بھی کافی ہوسکتا ہے۔ اسی کے ساتھ احادیث میں اس پر وعید بھی سنائی گئی ہے کہ کوئی مسلمان دوسروں کے لیے ایذا اور تکلیف کا سبب بنے۔ ذیل میں اس مضمون کی چند احادیث ذکر کی جاتی ہیں جن سے ایذائے مسلم و ایذائے ناس جیسے گناہ کی سنگینی کا وضاحت کے ساتھ علم ہوجائے گا۔

حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا مسلمان وہ شخص ہے کہ جس کی زبان اور ہاتھ (کی ایذاء) سے مسلمان محفوظ رہیں اور مومن وہ ہے کہ جس سے لوگ اپنے جان و مال کا اطمینان رکھیں۔ (سنن نسائی)

ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تشریف لائے اور فرمایا : اے لوگو! جو محض زبان سے ایمان لائے اور یہ ایمان دل تک نہیں پہنچا، مسلمانوں کو تکلیف مت دو ،جو اپنے بھائی کی عزت کے درپے ہوگا تو اللہ اس کے درپے ہوگا اور اسے ذلیل کردے گا، خواہ وہ محفوظ جگہ چھپاہواہو۔ (جامع المسانید والمراسیل، رقم: ۶۹۳۷۲)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دو لعنت کرنے والوں (یعنی اپنے لیے لعنت کا سبب بننے والے دوکاموں) سے بچو، صحابہ نے دریافت کیا یہ دونوں کام کون سے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جو راستہ یا وہاں موجود سایہ میں ضرورت سے فارغ ہوتے ہیں۔(مسلم)

حضرت سہل بن معاذ نے اپنے والد کے حوالے سے بیان کیا کہ ایک غزوہ میں ہم رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، راستہ میں ایک جگہ پڑاؤ کیا تو لوگوں نے خیمے لگانے میں راستہ کی جگہ تنگ کردی، اور عام گذر گاہ کو بھی نہ چھوڑا، اللہ کے رسول کو اس صورتحال کا پتہ چلا تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اعلان کرنے والا بھیجا، جس نے اعلان کیا کہ جو شخص خیمہ لگانے میں تنگی کرے یا راستہ میں خیمہ لگائے تو اس کا جہاد (قبول) نہیں ہے۔ (ابوداؤد)

ذکر کردہ احادیث مبارکہ میں ایسی واضح اور درخشاں ہدایات موجود ہیں جس پر عمل کرلیا جائے تو ہمارا معاشرہ امن کا گہوارہ اور مثالی معاشرہ بن سکتا ہے۔ لیکن اس کے برخلاف مسلم اکثریتی، مسجدوں میناروں اور علماء و حفاظ کے شہر مالیگاؤں میں گمان ہوتا ہے کہ ایک بڑا طبقہ لوگوں کو تکلیف پہنچانے جیسے سنگین گناہ کو گناہ ہی نہیں سمجھتا۔ بات اگر کچے، کم تعلیم یافتہ اور کم دیندار علاقوں کی ہوتی تو اس پر زیادہ افسوس نہیں ہوتا، لیکن وہ علاقے جنہیں تعلیم یافتہ اور دیندار سمجھا جاتا ہے ایسے علاقوں میں دھڑلے سے ذرا ذرا سی بات پر عام گذر گاہ کو مکمل طور پر بند کردیا جاتا ہے۔ موجودہ لاک ڈاؤن کے حالات میں صرف اپنے فائدہ کے لیے گلیوں کو بند کردیا جارہا ہے کہ پولیس اِدھر نہ آئے اور ہم بآسانی گلی میں بیٹھ کر کیرم، لوڈو کھیلیں اور گپ شپ کریں۔ ایسے لوگوں کو راہ گیروں کی تکلیف کا ذرا بھی احساس نہیں۔ پوری پوری گلی چلنے کے بعد راستہ بند ہونے کی وجہ سے راہ گیروں کو واپس ہونا پڑتا ہے۔ اسی جگہ کھڑے ہوئے لوگوں کو اتنی توفیق بھی نہیں ہوتی کہ ان کے جانے کے لیے سردست کچھ راستہ تو بنادیں۔ اس پر مزید نالائقی یہ کہ بند گلیوں سے بچے بلکہ بعض نوجوان شیطانی حرکت کرتے ہوئے پولیس کو عجیب وغریب حرکت کرکے یا ان پر فقرے کَس کر انہیں پریشان کرتے ہیں، بلاوجہ گلیوں کے نکڑ پر کھڑے ہوتے ہیں اور جیسے ہی پولیس کو دیکھتے ہیں بھاگتے ہوئے گلی میں گھُس جاتے ہیں۔ ایک صاحب بتانے لگے دو نوجوان بائک پر آئے دو پولیس والے جارہے تھے یہ ان کے پیچھے جاکر زور سے ہارن بجاکر اور ریس دے کر انہیں ڈرا دیا، جب تک وہ پولیس والے سنبھلتے بائک والے ہلڑباز نوجوان یہ جا وہ جا۔ ان سب کا خمیازہ عام شہریان جو اپنی ضروریات کے لیے سڑکوں پر نکلتے ہیں انہیں پولیس کے ڈنڈے کھاکر بھگتنا پڑتا ہے۔ بے قصوروں کو مارنے کی جتنی گناہ گار پولیس ہے اتنے ہی گناہ گار یہ ہلڑ باز نوجوان اور شیطانی شرارت کرنے والے بچے اور ان سے غفلت برتنے والے ان کے والدین ہیں کہ انہیں کا غصہ عام شہریان پر نکالا جاتا ہے۔ لہٰذا والدین پر ضروری ہے کہ وہ اپنے بچوں پر کڑی نظر رکھیں اور پوری کوشش کریں کہ آپ کے نو نہالوں سے کوئی غیرشرعی اور غیرقانونی حرکت سرزد نہ ہو۔

راستہ بند کرنے والوں کو جان لینا چاہیے کہ حقوق العباد کا معاملہ شریعت میں بہت اہمیت رکھتا ہے، لہٰذا خدارا فوراً اس سنگین گناہ سے باز آجائیں، کیونکہ آپ کی وجہ سے کسی کو تکلیف اور ایذا پہنچتی ہے تو بروزِ حشر آپ کا مؤاخذہ بڑا سخت ہونے والا ہے، جہاں معافی تلافی سے کام نہیں چلے گا۔ بلکہ آپ کی ایذا کے بقدر آپ کی نیکیاں انہیں دے دی جائیں گی اور اگر نیکیاں نہ ہوتو ان کے گناہ آپ پر ڈال دیئے جائیں گے۔ پس ڈریں اس دن سے جس دن ہمارے ذرہ برابر گناہ بھی ہمارے سامنے ہوں گے۔

اللہ تعالٰی ہم سب کو سو فیصد اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارے معاشرے کو مثالی معاشرہ بنادے۔ آمین

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں