اتوار، 22 اکتوبر، 2023

بینک کی نیلامی والی اشیاء خریدنے کا حکم

سوال :

کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے کہ اگر کوئی آدمی بینک کے ذریعے کوئی چیز مثلاً گاڑی یا مکان وغیرہ خریدتا ہے اور پھر اس کی مکمل قیمت ادا نہیں کرپاتا تو بینک وہ چیز ضبط کرلیتی ہے، اسی طرح بینک میں زیورات رکھ کر قرض لیا جاتا ہے اور پھر اس کی ادائیگی نہیں کی جاتی ہے تو بینک ان چیزوں کی نیلامی کرکے اپنی بقیہ رقم اس سے وصول کرلیتی ہے تو کیا ایسی چیزوں کا خریدنا ہمارے لیے جائز ہے؟ جواب عنایت فرمائیں۔
(المستفتی : ظہیر احمد، بمبئی)
--------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : اگر کوئی شخص بینک کے ذریعے قسطوں پر گاڑی یا مکان وغیرہ خریدے، پھر وہ کچھ قسطیں ادا کرنے کے بعد بقیہ قسطیں نہ بھر سکے، جس کی وجہ سے بینک مکان یا گاڑی وغیرہ اُس شخص سے ضبط کرلے، تو اگر بینک کا یہ تصرُّف حکومت کی تائید وتوثیق سے ہے، تو بینک سے اس طرح کی ضبط کردہ گاڑی یا مکان کو خریدنے کی اگرچہ گنجائش ہے اور اس سے خریدنے والے کی ملکیت بھی ثابت ہوجاتی ہے۔ تاہم اس سے بچنا بہتر ہے۔

اسی طرح بینک میں رہن رکھے ہوئے زیورات کی نیلامی میں ان کا خریدنا جائز ہے، دارالعلوم دیوبند کا فتوی ملاحظہ فرمائیں :
مسئولہ صورت میں اگر لوگ بینک سے قرض لے کر اپنا زیور بینک میں رہن کے طور پر رکھتے ہیں اور شروع میں یہ معاہدہ طے ہوجاتا ہے کہ اگر میں فلاں تاریخ تک روپیہ (قرض) ادا نہ کروں تو شئ مرہون (زیور) کو فروخت کرکے اپنا قرض وصول کرسکتے ہیں تو اس صورت میں بینک والے مقررہ وقت پر قرض وصول نہ ہونے کی صورت میں بولی لگاکر اس زیور کو بیچ کر اپنا قرض وصول کرسکتے ہیں اور لوگ ان سے خرید بھی سکتے ہیں۔ (رقم الفتوی : 57178)

قَوْله تَعَالَى : (للْفُقَرَاء الْمُهَاجِرين الَّذين أخرجُوا من دِيَارهمْ) الْآيَة فَإِنَّهُ سيق لبَيَان اسْتِحْقَاق الْغَنِيمَة فَصَارَ نصا فِي ذَلِك وَقد ثَبت فَقرهمْ بنظم النَّص فَكَانَ إِشَارَة إِلَى أَن اسْتِيلَاء الْكَافِر على مَال الْمُسلم سَبَب لثُبُوت الْملك للْكَافِرِ إِذْ لَو كَانَت الْأَمْوَال بَاقِيَة على ملكهم لَا يثبت فَقرهمْ، وَيخرج مِنْهُ الحكم فِي مَسْأَلَة الِاسْتِيلَاء وَحكم ثُبُوت الْملك للتاجر بِالشِّرَاءِ مِنْهُم وتصرفاته من البيع وَالْهِبَة وَالْإِعْتَاق، وَحكم ثُبُوت الاستغنام وَثُبُوت الْملك للغازي وَعجز الْمَالِك عَن انْتِزَاعه من يَده وتفريعاته۔ (اصول الشاشی : ١/١٠١)

فَالأَْصْل بِالنِّسْبَةِ لِلْمَال الْمَعْصُومِ الْمَمْلُوكِ لِلْغَيْرِ أَنَّ الاِسْتِيلاَءَ عَلَيْهِ مُحَرَّمٌ، إِلاَّ إِذَا كَانَ مُسْتَنِدًا إِلَى طَرِيقٍ مَشْرُوعٍ۔ (الموسوعۃ الفقہیۃ : ٤/١٥٨)

كُلٌّ يَتَصَرَّفُ فِي مِلْكِهِ كَيْفَ مَا شَاءَ۔ (درر الاحکام : ٣/١٠١)

سلطة ببيع الرهن ومات للمرتهن بيعه بلا محضر وارثه۔ (در مختار : ٢٨٨)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
06 ربیع الآخر 1445

1 تبصرہ: