ہفتہ، 7 اکتوبر، 2023

عاملین کے مؤکلین کی حقیقت؟


سوال :

محترم مفتی صاحب ! مؤکل کی کیا حقیقت ہے؟ ایک صاحب کا کسی عامل کے پاس آنا جانا ہے وہ کہنے لگے کہ ان کے پاس مؤکل ہے جس کے ذریعے سے وہ علاج کرتے ہیں۔ میں نے پوچھا کہ یہ مؤکل کیا ہوتا ہے؟ تو کہا کہ مؤکل فرشتے کو کہتے ہیں۔ ہم عملیات کے ذریعے اگر انہیں مانوس کرلیں تو وہ ہمیں دوسروں کی مصیبت اور پریشانی کی وجہ بتاتے ہیں۔ آپ سے گزارش ہے کہ اس کی وضاحت فرمائیں۔
(المستفتی : فیضان احمد، مالیگاؤں)
--------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : مادیت پرستی کے اس دور میں جبکہ ہر شعبہ جات میں بے ایمانی اور دھوکہ دہی کا دور دورہ ہورہا ہے، تو عملیات کا شعبہ بھی کیونکر اس سے بچا رہے گا؟ لہٰذا یہاں بھی جھوٹ اور دھوکہ دہی کا بازار گرم ہے، اور اس بات کی طرف کئی سالوں پہلے حکیم الامت علامہ اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ نے توجہ دلائی ہے، چنانچہ آپ لکھتے ہیں :

آج کل عملیات میں بکثرت دھوکہ دیا جاتا ہے اور اس کی مختلف صورتیں ہوتی ہیں بعض میں تو خود عامل ہی دھوکہ میں ہے اور بعض تو خود دھوکہ میں نہیں بلکہ حقیقت جانتے ہیں مگر پیسے کمانے کے لیے قصداً مریض کو دھوکہ دیتے ہیں، بعضے لوگ حاضرات کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس سے جنات حاضر ہوتے ہیں اور کسی عورت یا طفل نابالغ کے ہاتھ میں کوئی نقش یا اس کے انگوٹھے پر سیاہی یا تیل لگا کر اس کو نگاہ جماکر دیکھنے کو کہتے ہیں اور اس کو کچھ صورتیں نظر آنے لگتی ہیں اور کہا جاتا ہے کہ یہ جنّ ہیں، یہ جنّات کے آنے کا دعوی نرا انخداع یا خداع ہے یعنی دھوکہ کھانا یا دھوکہ دینا ہے۔ (اغلاط العوام، صفحہ نمبر : 53)

دارالعلوم دیوبند کا فتوی ہے :
عاملین کے پاس جو موٴکل رہتے ہیں وہ جنات ہوتے ہیں، جو از خود یا ان کے مخصوص عمل کے ذریعے ان کے تابع ہوجاتے ہیں، اور سارے جن ناری مخلوق ہیں آگ سے پیدا ہوئے ہیں، نوری نہیں، نوری مخلوق صرف فرشتے ہیں۔ (رقم الفتوی : 163784)

جامعہ بنوریہ عالمیہ کا فتوی ہے :
’’مؤکل‘‘ عاملین کی اصطلاح ہے جس کا اطلاق عموماً جنوں پر کیا جاتا ہے، ورنہ عام طور پر عاملین جھوٹ کا سہارا لے کر مؤکل کے لفظ سے اپنے پاس آنے والوں کو مرعوب کرکے اپنے اعتماد میں لیتے ہیں۔ اگر انسان قرآن و سنت پر پورا عمل کرنے والا بن جائے تو کوئی مؤکل اور جن اس کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتا۔ (رقم الفتوی : 58763)

معلوم ہوا کہ اپنے پاس مؤکل ہونے کا دعوی کرنے والے عاملین عموماً جھوٹ بولتے ہیں، ان کے پاس کوئی مؤکل نہیں ہوتا، بلکہ وہ اندازے اور تجربہ کی بنیاد پر بات کرتے ہیں یا پھر مریض کو مرعوب کرکے اپنا مفاد حاصل کرنے کے لیے جان بوجھ کر کوئی غلط وجہ بتاتے ہیں، مریضوں کی تکالیف کے اسباب میں ان کی اگر کوئی بات صحیح نکل جائے تو وہ اتفاق ہوتا ہے، ورنہ ان کی ہر بات یقینی اور سچ نہیں ہوتی، اور اگر کسی کا واقعتاً کسی مؤکل سے رابطہ ہوتو یہاں مؤکل سے مراد جنات ہی ہوتے ہیں جو ناری مخلوق ہیں، فرشتوں کے علاوہ کسی اور نوری مخلوق کا وجود قرآن وحدیث سے ثابت نہیں ہے، لہٰذا مؤکل کو نوری مخلوق سمجھنا درست نہیں ہے، اس لیے کہ فرشتے کسی کے تابع نہیں ہوتے۔

عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : خُلِقَتِ الْمَلَائِكَةُ مِنْ نُورٍ، وَخُلِقَ الْجَانُّ مِنْ مَارِجٍ مِنْ نَارٍ، وَخُلِقَ آدَمُ مِمَّا وُصِفَ لَكُمْ.

الملائكة: جمع ملأك بالهمز، أو جمع ملاك بالتسهيل، وأصل ملأك مألك بالتقديم والتأخير في الهمز؛ لأنه من الأَلُوكة أو الأَلْوَكة، والألوكة في اللغة هي الرسالة، قال الله تعالى: {جَاعِلِ الْمَلائِكَةِ رُسُلًا أُولِي أَجْنِحَةٍ مَثْنَى وَثُلاثَ وَرُبَاعَ يَزِيدُ فِي الْخَلْقِ مَا يَشَاءُ} [فاطر:1].

وهم عالم غيبي خلقهم الله عز وجل من نور، وجعلهم طائعين له متذللين، ولكل منهم وظائف خصه الله تبارك وتعالى بها، وقد خلقهم الله تبارك وتعالى من نور، وهذا مصداق ما رواه مسلم في صحيحه من حديث عائشة رضي الله عنها من أن المادة التي خلقوا منها هي النور، فقد قال صلى الله عليه وسلم: (خلقت الملائكة من نور، وخلق الجان من مارج من نار، وخلق آدم مما وصف لكم)، يعني: من طين من حمأ مسنون، ولكن النبي صلى الله عليه وسلم لم يبين لنا أي نور هذا الذي خلقوا منه.

ونحن علينا أن نؤمن بأن الله تبارك وتعالى خلق الملائكة من نور ونسكت، ولا نؤول هذا النور بغير دليل واضح في هذا الأمر۔ (شرح صحیح مسلم، کتاب الزہد والرقائق، بَابٌ فِي أَحَادِيثَ مُتَفَرِّقَة، ج:2، ص:79، ط:دارالکتب العلمیۃ)

عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال : من غش فلیس منا، انتہی الحدیث، قال الترمذي : والعمل علی ہٰذا عند أہل العلم کرہوا الغش، وقالوا : الغش حرام۔ (سنن الترمذي : ۱؍۲۴۵)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
21 ربیع الاول 1445

2 تبصرے: