ہفتہ، 23 فروری، 2019

حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مولٰی کہنے کا حکم

سوال :

میرا تعلق حنفی مسلک سے ہے، اکثر ایک بڑے عالم کا بیان سنتا رہتا ہوں، ایک بیان میں عالم صاحب نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے تعلق سے ایک حدیث پڑھی ہے کیا وہ حدیث درست ہے؟ حدیث کا حوالہ کیا ہے؟ کیا حضرت علی کو مولی کہہ سکتے ہیں؟ اگر کہہ سکتے ہیں تو حنفی مسلک کے لوگ کیوں نہیں کہتے؟
ویڈیو بیان ارسال کررہا ہوں براہ کرم اسے دیکھ کر مفصل جواب عنایت فرمائیں ۔
(المستفتی : شاہد احمد، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : آپ نے جس حدیث شریف سے متعلق سوال کیا ہے وہ متعدد کُتب احادیث میں موجود ہے جو مع پس منظر یہاں ذکر کی جاتی ہے، جس سے مسئلہ ایک حد تک خود بخود واضح ہوجائے گا۔
نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع سے قبل ماہ رمضان ۱۰ہجری میں حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو تین سو آدمیوں پر سردار مقرر فرماکر یمن کی جانب روانہ فرمایا تھا، قیام یمن کے دوران کچھ ساتھیوں کو حضرت علی رضی اﷲ عنہ سے شکایت ہوگئی، اس میں حضرت بریدہ اسلمی رضی اﷲ عنہ بھی شامل تھے، تو حضرت بریدہ اسلمی رضی اﷲ عنہ نے واپسی کے بعد حضور صلی اﷲ علیہ وسلم سے حضرت علی رضی اﷲ عنہ کی شکایت کی، تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع سے واپس ہوتے ہوئے ’’غدیر خم‘‘ کے مقام پر خطبہ دیا، جس میں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اﷲ عنہ کی نسبت فرمایا: ’’مَنْ کُنْتُ مَوْلاَہُ فَعَلِيٌّ مَوْلاَہُ‘‘ جس کا میں دوست ہوں علی بھی اس کے دوست ہیں۔ (١)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہ منقبت ان کے علم وفہم حسن سیرت اور صفاء باطن اور بااخلاق وقدامت فی الاسلام کے سبب فرمایا۔آپ کے اس ارشاد کا مقصد یہ بھی تھا کہ بتقاضائے بشریت حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ان کے بعض ساتھیوں کو جو دوستانہ شکر رنجی پیدا ہوگئی ہے وہ دور ہوجائے۔

اس کے علاوہ مزید دلائل بھی ذکر کئے جاتے ہیں جن سے امید ہے کہ مسئلہ مکمل طور پر منقح اور واضح ہوجائے گا۔

اگر احادیثِ مبارکہ پر نظر ڈالی جائے تو ہمیں معلوم ہوتا ہے لفظِ مولی کا استعمال آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت زید رضی اللہ عنہ کے لیے بھی فرمایا ہے، ارشاد ہوتا ہے : أَنْتَ أَخُونَا وَمَوْلاَنَا (صحیح بخاری، رقم : ٢٦٩٩)
آپ ہمارے بھائی بھی ہیں اور ہمارے مولی بھی ہیں۔
تو پھر حضرت زید رضی اللہ عنہ کے لیے مولی کا لفظ استعمال کیوں نہیں کیا جاتا؟ اور یہاں کیوں نہیں مولی کے معنی سردار اور آقا کے لیا جاتا ہے؟ 

امامِ لغت ابن اثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وَقَدْ تَكَرَّرَ ذِكْرُ «المَوْلَى» فِي الْحَدِيثِ، وَهُوَ اسْمٌ يقَع عَلَى جَماعةٍ كَثيِرَة، فَهُوَ الرَّبُّ، والمَالكُ، والسَّيِّد، والمُنْعِم، والمُعْتِقُ، والنَّاصر،والمُحِبّ،والتَّابِع،والجارُ،وابنُ العَمّ، والحَلِيفُ، والعَقيد، والصِّهْر، والعبْد، والمُعْتَقُ، والمُنْعَم عَلَيه۔
حدیث میں مولی کا لفظ کئی مرتبہ آیا ہے اور یہ لفظ بہت سارے معنی کے لیے مستعمل ہے، مثلاً مولی کا معنی رب، مالک، سردار،کسی پر احسان کرنے والا، کسی غلام کو آزاد کرنے والا،کسی کی مدد کرنے والا، محبت کرنے والا فرمانبرداری کرنے والا، چچا کا بیٹا، جس سے معاہدہ ہو اور اسی طرح رشتے داروں، غلام اور جس پر کوئی احسان کیا جائےاس کو بھی مولی کہتے ہیں۔
والمُوَالاةُ مِن وَالَى القَوْمَ.
وَمِنْهُ الْحَدِيثُ «مَن كُنْتُ مَوْلاه فَعَليٌّ مَوْلاه» يُحْمَل عَلَى أكْثر الأسْمَاء المذْكورة۔
مولا کا لفظ”المولاۃ”سے مشتق ہے تو اس کا معنی ہوتا ہے کسی قوم سے محبت رکھنا اور یہ معنی اس حدیث میں ہے :
مَن كُنْتُ مَوْلاه فَعَليٌّ مَوْلاه
یعنی جس کا میں محبوب ہوں حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی اس کے محبوب ہونے چاہییں۔  (النھایہ فی غریب الحدیث والاثر : ٥/٢٢٩)

امام بیہقی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
فَأَرَادَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَذْكُرَ اخْتِصَاصَهُ بِهِ وَمَحبَّتَهُ إِيَّاهُ وَيَحُثُّهُمْ بِذَلِكَ عَلَى مَحَبَّتِهِ وَمُوَالِاتِهِ وَتَرْكِ مُعَادَاتِهِ
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد یہ تھی کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا اپنے ساتھ خصوصی تعلق اور اپنی محبت حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ جوتھی وہ ذکرکرتے اور لوگوں کو بھی ترغیب دیتے کہ وہ بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ سے محبت رکھیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ
اس کے آگے الفاظ ہیں کہ:
اللَّهُمْ وَالِ مَنْ وَالاهُ وَعَادِ مَنْ عَادَاهُ۔
اے اللہ! جو علی سے محبت رکھے تُو اس سے بھی محبت رکھ اور جو علی سے نفرت رکھے تُو اس سے نفرت کر۔ وہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں یہ ہی معنی بیا ن کیا گیا ہے کہ جس کو مجھ سے محبت ہے اس کو حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بھی محبت ہونی چاہیے اور یہی معنی دوسری حدیث میں ان الفاظ کےساتھ آیا ہے۔

لَا يُحِبُّنِي إِلَامُؤْمِنٌ وَلَا يُبْغِضُنِي إِلَّا مُنَافِقٌ
مجھ سے محبت نہیں رکھے گا مگر مومن، مجھ سے نفرت نہیں رکھے گا مگر منافق۔  (الاعتقاد : ١/٣٥٤)

مذکورہ بالا تفصیلات کی روشنی میں یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ”علی مولا“ یا ”مولی علی“  کہنا درست نہیں ہے، کیونکہ عُرف میں "مولی"  کا اطلاق "آقا" پر ہوتا ہے اور حدیث شریف میں مولی کے معنی یہ نہیں لئے گئے ہیں، لہٰذا مذکورہ عالم صاحب نے مولی کا جو معنی لیا ہے وہ غلط ہے، اور ان کے درج ذیل جملوں کی وجہ سے ان کے موقف کا غلط ہونا مزید واضح ہوجاتا ہے۔
فرماتے ہیں : یہاں مولی کا معنی دوست یا محبوب کا نہیں ہے بلکہ اس کا معنی "آقا اور سردار" ہے۔ اور آگے بالکل صاف صاف کہتے ہیں کہ : "شیعہ جو مولاعلی کہتے ہیں وہ صحیح کہتے ہیں۔"

اب یہ بات تو بالکل مشہور ہے کہ شیعہ حضرات تو حضرت علی کو خلیفہ بلافصل سمجھ کر مولاعلی کہتے ہیں، اور عالم صاحب غالباً نادانستہ طور پر ان کی تائید کررہے ہیں۔ لہٰذا اسے عالم صاحب کی ایک علمی خطا ہی کہا جائے گا، اور اس پر عمل کرنے اور اسے عام کرنے سے پرہیز کیا جائے گا۔

حنفی مسلک میں حلقہ دیوبند کے علماء سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو اسی وجہ سے مولی نہیں کہتے کہ اس میں شیعوں کی مشابہت پائی جاتی ہے، اور حنفیت کی دعویدار دیگر جماعتیں کہتی ہوں تو یہ ان کا معاملہ ہے۔

١) أن بریدۃ بن الحصیب الأسلمي رضي اللّٰہ عنہ: روی صلی اللّٰہ علیہ وسلم نزل بغدیر خم حین مراجعۃ حجۃ الوداع - وہو موضع بین مکۃ ومدینۃ - أخذ بید علی رضي اللّٰہ عنہ وخاطب جماعۃ المسلمین الحاضرین فقال: یا معشر المسلمین! ألست أولی بکم من أنفسکم؟ قالوا: بلی! قال: من کنت مولاہ فعلي مولاہ۔ اللّٰہم وال من مولاہ، وعاد من عاداہ، قال الشیعۃ في تقریر الاستدلال بہذا الحدیث: أن المولی بمعنی الأولی بالتصرف، وکونہ أولی بالتصرف عین الإمامۃ۔ (تحفۂ اثنا عشریہ ۱۵۹، والحدیث بتمامہ أخرجہ الإمام أحمد في مسندہ ۱؍۱۱۹ رقم: ۹۶۱)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
18 جمادی الآخر 1440

5 تبصرے: