پیر، 25 فروری، 2019

مسبوق سے متعلق چند اہم مسائل

*مسبوق سے متعلق چند اہم مسائل*

✍ محمد عامر عثمانی ملی

قارئین کرام ! نماز ایک عظیم الشان عبادت ہے جو ہر عاقل بالغ مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے، اور مردوں کے لئے باجماعت نماز ادا کرنے کو سنت مؤکدہ اور قریب قریب واجب قرار دیا گیا ہے، احادیث مبارکہ میں باجماعت نماز ادا کرنے کی بڑی فضیلت بیان کی گئی ہے اور بلا عذر اس کے ترک پر وعیدیں وارد ہوئی ہیں جن میں سے چند احادیث یہاں ذکر کی جاتی ہیں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد مبارک ہے کہ باجماعت نماز اکیلے نماز کے مقابلہ میں ۲۷؍ درجہ زیادہ فضیلت رکھتی ہے۔ (بخاری شریف ۱؍۸۹) 

آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو شخص اچھی طرح وضو کرکے فرض نماز کی با جماعت ادائیگی کے لئے گیا اور امام کے ساتھ نماز پڑھی تو اس کے سب گناہ معاف کردئے جاتے ہیں۔ (الترغیب والترہیب ۱؍۱۵۹)

حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا لوگ جماعت چھوڑنے سے باز آجائیں ورنہ میں ان کے گھروں کو ضرور جلوادوں گا۔ (الترغیب والترہیب ۱؍۱۷)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا نہایت بے مروتی اور کفر ونفاق کی علامت ہے کہ آدمی اذان سن کر نماز کے لئے حاضر نہ ہو۔ (الترغیب والترہیب ۱؍۱۶۷)

لہٰذا مسلمان مردوں کو چاہیے کہ وہ مسجد میں جاکر باجماعت نماز ادا کرنے کا اہتمام کریں، اس میں غفلت و سستی کا مظاہرہ کرنا سخت معصیت ہے۔

والجماعة سنة موٴکدة للرجال ۔۔من غیر حرج (درمختار) قال الشامي: قید لکونہ سنة موٴکدة أو واجبة، فبالحرج یرتفع ویرخص في ترکہا ولکنہ یفوتہ الأفضل (درمختار مع الشامي، ۲/ ۲۸۷- ۲۹۱، باب الإمامة، زکریا)

محترم قارئین ! ویسے تو نماز میں کئی مسائل اہمیت کے حامل ہیں، انہیں میں سے بعض اہم مسائل باجماعت نماز ادا کرنے کی صورت میں پیش آتے ہیں جو مسبوق سے متعلق ہیں، چنانچہ اس تحریر میں ان مسائل کو آسان انداز میں بیان کرنے کی کوشش کی جائے گی تاکہ عوام الناس کو سمجھنے میں سہولت ہو۔

مسبوق اس مقتدی کو کہا جاتا ہے جو پہلی رکعت کا رکوع ہوجانے کے بعد جماعت میں شامل ہوا ہو خواہ وہ پہلی رکعت کے سجدے میں شامل ہوا یا دوسری، تیسری اور چوتھی میں شامل ہو۔

والمسبوق ہو من سبقہ الإمام بکلہا أو بعضہا۔ (طحطاوی ۱۶۹)

*مسبوق کے لیے چند ابتدائی احکام*

مسبوق کے لیے سب سے پہلے حکم یہ ہے کہ اسے امام کے ساتھ جو رکن سجدہ، قعدہ وغیرہ مل جائے اس میں شامل ہوجائے امام کے قیام کا انتظار نہ کرے، جیسا کہ بعض لوگوں کا عمل ہے۔ نماز کے اختتام پر جب امام دونوں سلام پھیرچکے اور مسبوق کو اس کا اطمینان ہوجائے کہ امام پر سجدۂ سہو لازم نہیں ہے، تو اب وہ اپنی نماز پوری کرنے کے لئے کھڑا ہو، اگر مسبوق اپنی نماز پوری کرنے کے لئے کھڑا ہوگیا ہو، پھر اسے معلوم ہوا کہ امام پر سجدہ سہو ہے، تو وہ واپس لوٹ کر امام کے ساتھ سجدہ سہو میں شامل ہوگا۔

لا یقوم بعد التسلیمۃ أو التسلیمتین بل ینتظر فراغ الإمام بعدہما۔ (شامی ۲؍۳۴۸)

لو قام إلی قضاء ما سبق بہ وعلی الإمام سجدتا سہو ولو قبل اقتدائہٖ فعلیہ أن یعود۔ (بدائع الصنائع ۱؍۴۲۱)

*مسبوق کا امام کے ساتھ سلام پھیر دینا*

اگر مسبوق شخص نے بھول سے سلام پھیردیا تو اس کی تین صورتیں ہیں : (۱) امام سے پہلے سلام پھیرا (۲) امام کے بالکل ساتھ ساتھ سلام پھیرا (۳) امام کے بعد سلام پھیرا (جیساکہ عام طور پر ہوتا ہے) تو ان میں پہلی اور دوسری صورت میں مسبوق پر سجدۂ سہو واجب نہیں ہے اور تیسری صورت میں واجب ہے، خواہ ایک طرف سلام پھیرا ہو یا دونوں طرف پھیردیا ہو۔

ومن أحکامہ أنہ لو سلّم مع الإمام ساہیاً أو قبلہ لا یلزمہ سجود السہو لأنہ مقتد وإن سلّم بعدہ لزمہ۔ (البحر الرائق ۱؍۶۶۲، تاتارخانیہ ۱؍۱۰۱/بحوالہ کتاب المسائل)

*مسبوق شخص اپنی چھوٹی ہوئی رکعت کیسے مکمل کرے؟*

مسئلہ ھذا میں اگر درج ذیل اصول کو سمجھ لیا جائے تو ان شاء اللہ اس میں غلطی کا امکان باقی نہیں رہے گا، اصول یہ ہے کہ مسبوق امام کے سلام پھیرنے کے بعد اپنی چھوٹی ہوئی رکعتوں کو اس طرح ادا کرے گا کہ قرأت کے اعتبار سے انہیں پہلی رکعات شمار کرے گا، جب کہ قعدہ کی ترتیب کے اعتبار سے ان رکعتوں کو آخری سمجھا جائے گا۔
مثلاً اگر کسی شخص کی ظہر، عصر یا عشاء کی نماز میں تین رکعتیں چھوٹ گئیں اور امام کے ساتھ صرف ایک رکعت ملی، تو یہ شخص امام کے سلام کے بعد جب اپنی چھوٹی ہوئی تین رکعتیں ادا کرے گا تو ترتیب یہ رہے گی کہ پہلی رکعت میں ثناء، أعوذ باللہ، بسم اللہ پڑھنے کے بعد سورہ فاتحہ اور کوئی سورت ملائے گا، اور پھر رکوع سجدہ کے بعد قعدہ کرے گا، کیوں کہ یہاں اس کی دو رکعتیں پوری ہوئی ہیں، ایک امام کے ساتھ اور دوسری بعد میں، (اگر اس رکعت میں قعدہ نہیں کیا تو سجدہ سہو واجب ہوجائے گا) پھر قعدہ کے بعد والی رکعت میں سورہ فاتحہ اور سورت ملائے گا اور آخری رکعت میں سورت نہیں ملائے گا۔ اسی طرح ایک دو رکعت چھوٹ جائے تو مذکورہ بالا ہدایت کے مطابق نماز مکمل کرے گا۔

البتہ مغرب کی نماز میں فرق یہ ہے کہ اگر کسی شخص کو امام کے ساتھ مغرب کی صرف ایک رکعت ملی تو وہ بقیہ دو رکعتوں میں سورہ فاتحہ کے ساتھ سورۃ ملائے گا، اور بہتر ہے کہ دوسری رکعت میں قعدہ کرے لیکن اگر قعدہ نہیں کیا تب بھی سجدہ سہو واجب نہ ہوگا۔ حضرت عبداللہ مسعود رضی اللہ عنہ کے فتوی کے مطابق نماز درست ہوجائے گی۔

والمسبوق من سبقہ الإمام بہا أو ببعضہا وہو منفرد حتی یثني ویتعوذ ویقرأ۔ (درمختار) وتحتہ في الشامیۃ: تفریع علی قولہ ’’منفرد فیما یقضیہ‘‘ بعد فراغ إمامہ، فیأتي بالثناء والتعوذ؛ لأنہللقراء ۃ ویقرأ لأنہ یقضي أول صلا تہ في حق القراء ۃ۔ (درمختار مع الشامي، باب الإمامۃ / مطلب: فیما لو أتی بالرکوع والسجود أو بہما مع الإمام أو قبلہ أو بعدہ۔ ۲؍۳۴۶-۳۴۷ زکریا)

وحکمہ أنہ یقضی أول صلا تہ فی حق القراء ۃ وآخرہا فی حق القعدۃ۔ (طحطاوی علی المراقی ۱۶۹)

ولو أدرک رکعۃً من الرباعیۃ فعلیہ أن یقضی رکعۃ ویقرأ فیہا الفاتحۃ والسورۃ ویقعد لأنہ یقضی آخر صلا تہ فی حق القعدۃ وحینئذ فہی ثانیۃ ویقضی رکعۃ یقرأ فیہا کذلک ولا یقعد، وفی الثالثۃ یتخیر والقراء ۃ أفضل۔ (حلبی کبیر ۴۶۸-۴۶۹)

لو أدرک مع الإمام رکعۃ من المغرب فإنہ یقرأ فی الرکعتین الفاتحۃ والسورۃ ویقعد فی أولٰہما، لأنہا ثانیۃ ولو لم یقعد جاز استحساناً لا قیاساً ولم یلزمہ سجود السہو لو سہواً لکونہا أولی من وجہ۔ (حلبی کبیر ۴۶۸)

عن ابن مسعودؓ ان جندباً ومسروقا ادرکا رکعۃ یعنی عن صلاۃ المغرب فقرأ جندب ولم یقرأ مسروق خلف الا مام فلما سلم الا مام قاما یقضیان فجلس مسرق فی الثانیۃ والثالثۃ وقام جندب فی الثانیۃ ولم یجلس فلما انصرف تذکر اذلک فاتیا ابن مسعود فقال کل قد اصاب اوقال کل قد احسن واصنع کمایصنع مسروق۔ (مجمع الزوائد ج ۱ص ۱۷۲)

*مسبوق کے لئے قرأت میں ترتیب لازم نہیں*

مسبوق سے متعلق ایک اور مسئلہ یہ بھی ہے جس کے متعلق سوال ہوتے رہتے ہیں وہ یہ کہ مسبوق کے لئے قرأت میں ترتیب مسنون ہے یا نہیں؟ معلوم ہونا چاہیے کہ مسبوق جب اپنی چھوٹی ہوئی رکعت ادا کرے گا تو وہ کوئی بھی سورت پڑھ سکتا ہے، خواہ وہ امام کی پڑھی ہوئی سورت سے پہلے کی ہو یا بعد کی، اس لئے کہ وہ منفرد اور تنہا نماز پڑھنے والے کے حکم میں ہے، لہٰذا مسبوق کے لیے امام کی قرأت کی ترتیب کو باقی رکھنا مسنون نہیں ہے۔

والمسبوق من سبقہ الإمام بہا أو ببعضہا، وہو منفرد حتی یثنی ویتعوذ ویقرأ فیما یقضیہ … ویقضي أول صلاتہ في حق قراء ۃ، وأخرہا في حق تشہد۔ (درمختار ۲؍۲۴۶ زکریا/مستفاد : کتاب المسائل/کتاب النوازل)

اللہ تعالٰی ہم سب کو پنج وقتہ نمازوں کا باجماعت اہتمام کرنے کی توفیق عطا فرمائے، اور ہماری نمازوں کا ظاہر اور باطن دونوں سنوار دے۔ آمین یا رب العالمین

3 تبصرے:

  1. جزاک اللہ خیرا
    ماشا اللہ بہت ہی عمدہ اور بہت ہی آسان انداز میں سمجھایا گیا ہے...
    اللہ ہم سب کو پنچ وقت نماز پڑھنے کی سعادت نصیب فرمائے آمین ثم آمین یا رب العالمین

    جواب دیںحذف کریں
  2. میں ایک افسانہ لکھ رہا ہوں
    موضوع ہے
    اغلام بازی
    مولانا کیا آپ بتا سکتے ہیں اس گناہ کی ابتدا کب اور کیسے ہوئی
    قرآن اور حدیث میں اس گناہ کے بارے میں کیا کہا گیا ہے
    قرآن کی کوئی آیت
    میں اردو کا ایک طالب علم ہوں
    آپ سے امید ہے
    آپ ضرور روشنی ڈالیں گیں
    پیشگی شکریہ

    ھارون اختر
    صدر انجمن محبان ادب

    جواب دیںحذف کریں
  3. بہت خوب اگر مسبوق نے امام کے ساتھ سلام پھیر کر سجدہ سہو کیا تو کیا اس کی نماز فاسد ہو جائے گی

    جواب دیںحذف کریں