منگل، 5 فروری، 2019

مریض کی عیادت کے فضائل ومسائل

*مریض کی عیادت کے فضائل ومسائل*

✍ محمد عامرعثمانی ملی

قارئین کرام ! اسلام ایک ایسا مذہب ہے جس نے انسانیت کے ہرتقاضے کو پورا کیا ہے، اس نے اپنے ماننے والوں کو آپس میں محبت اورغمخواری کی تعلیم دی ہے، اور اس پر بروزِ حشر اجر وثواب کا وعدہ بھی کیا ہے، آپسی ہمدردی اورغمخواری کے اظہار کا ایک اہم موقع بیمار کی مزاج پُرسی بھی ہے، بلاشبہ ایک انسان اپنی بیماری کے ایام میں دوسرو‌ں کی محبت اور ہمدردی کا خواہاں ہوتا ہے اور جب اسے اپنے دینی بھائیوں کی طرف سے محبت اور ہمدردی کے دو بول سننے کو ملتے ہیں تو یہ اس کے دل پر شبنم کے قطرات کی ٹھنڈک کا کام کرجاتے ہیں۔

مریض کی عیادت ایک عظیم سنت ہے، جس کے بڑے بڑے فضائل متعدد احادیث میں وارد ہوئے ہیں، جن میں سے چند احادیث ذیل میں ذکر کی جاتی ہیں ۔

حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمیں مریضوں کی عیادت کا حکم دیا۔ (بخاری : 5635/مسلم : 2066)

حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : بیشک جب مسلمان اپنے مسلمان بھائی کی عیادت کرتا ہے تو جب تک وہ واپس نہ جائے اس وقت تک جنت کے باغوں اور پھلوں کے درمیان رہتا ہے۔ (مسلم : 2567)

حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ جو مسلمان کسی مسلمان بھائی کی عیادت کو صبح کو جاتا ہے، تو ستر ہزار فرشتے شام تک اس کے حق میں رحمت کی دعائیں کرتے رہتے ہیں، اور جنت میں اس کے لیے ایک باغ ہوگا۔( ترمذی : 969 )

ہارون ابن ابی داؤد رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ حضرت انس رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور عرض کیا کہ اے ابوحمزہ ! جگہ دور کی ہے لیکن ہمارا دل چاہتا ہے کہ آپ کی عیادت کو آیا کریں، اس پر انہوں نے اپنا سر اٹھا کر کہا کہ میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص کسی بیمار کی عیادت کرتا ہے، وہ رحمت الہٰیہ کے سمندر میں غوطے لگاتا ہے اور جب مریض کے پاس بیٹھتا ہے تو اللہ کی رحمت اسے ڈھانپ لیتی ہے، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ! یہ تو اس تندرست کا آدمی کا حکم ہے جو مریض کی عیادت کرتا ہے، مریض کا کیا حکم ہے؟ نبی ﷺ نے فرمایا اس کے گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں۔ (مسند احمد : 13673)

حضرت ابوہریرہ ؓ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : جب کوئی شخص بیمار کی عیادت کرتا ہے تو پکارنے والا (یعنی فرشتہ) آسمان سے پکار کر کہتا ہے کہ " خوشی ہو تمہیں دنیا و آخرت میں، اچھا ہو تیرا چلنا، اور تجھے جنت کا ایک بڑا درجہ حاصل ہو۔ (ابن ماجہ : 1443)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ رب العزت قیامت کے دن کہے گا '' اے آدم کی اولاد! میں بیمار ہوا تھا تو نے میری عیادت نہیں کی ، بندہ کہے گا اے اللہ کیسے میں تیری عیادت کرتا جبکہ تو سارے جہانوں کا پروردگار ہے ؟ اللہ کہے گا : کیا تم نہیں جانتے کہ میرا فلاں بندہ بیمار ہوا تھا ، تو اس کی عیادت اور مزاج پرسی کو نہ گیا ؟ کیا تجھے خبر نہیں ، اگر تم اس کی عیادت کو جاتے تو تم مجھ کو اس کے پاس پاتے۔ (مسلم : 2569)

عیادت کے فضائل کے ساتھ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے عیادت کا طریقہ اور اس سے متعلق احکامات بھی بیان فرمائے ہیں، لہٰذا عیادت کے وقت درج ذیل باتوں کا خیال رکھا جائے۔

1) بیمار کی عیادت صرف اللہ کی رضا اور اس کی خوشنودی کے لئے ہو اس کے پیچھے کوئی دنیاوی مفاد نہ ہو، اور نہ ہی شکوے شکایت سے بچنے کے لیے عیادت کی جائے بلکہ محبت و اخوت، ہمدردی وغم گساری کا جذبہ پیش نظر ہو۔

2) مریض کے پاس بیٹھ کر تسلی و تشفی کی باتیں کی جائیں، غم اور فکر کی باتیں نہ ہوں۔
حضرت ابوسعید ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا : جب تم مریض کے پاس (اس کا حال پوچھنے کے لئے) جاؤ تو اس کی زندگی کے بارے میں اس کا غم دور کرو (یعنی تسلی و تشفی دلاؤ کہ فکر و غم نہ کرو تم جلد ہی صحت یاب ہو جاؤ گے اور تمہاری عمر دراز ہو گی) اس لئے کہ یہ (تسلی و تشفی اگرچہ) کسی چیز کو (یعنی مقدر کے لکھے کو) ٹال نہیں سکتی (مگر) مریض کا دل (ضرور) خوش ہوتا ہے۔ (ترمذی، ابن ماجہ)

3) مریض کے پاس زیادہ دیر تک نہ بیٹھے، تاکہ اسے اور اس کے گھر والوں کو بوجھ اور تکلیف محسوس نہ ہو، حدیث شریف میں آتا ہے کہ بہترین عیادت وہی ہے جس میں عیادت کرنے والا جلد اٹھ کھڑا ہو۔ (بیہقی)
اس ضمن میں مشکوۃ مترجم میں موجود ایک واقعہ ملاحظہ فرماتے ہوئے چلیں۔
کتابوں میں ایک شخص کا واقعہ منقول ہے وہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ حضرت سری سقطی رحمہ اللہ کی عیادت کو گئے جب کہ وہ مرض الموت میں مبتلا تھے۔ ہم ان کے پاس بہت دیر تک بیٹھے رہے اس وقت ان کے پیٹ میں بہت درد ہو رہا تھا ہم نے ان سے کہا کہ آپ ہمارے لئے دعا فرمائیے۔ انہوں نے فرمایا کہ " اے اللہ ! ان لوگوں کو مریض کی عیادت کرنے کے آداب و طریقے سکھا! گویا انہوں نے اس دعا سے اس طرف اشارہ فرمایا کہ مریض کے پاس جب عیادت کے لئے جائے تو زیادہ دیر تک نہ بیٹھے بلکہ تھوڑی دیر بیٹھ کر اور عیادت کر کے چلا آئے۔ ہاں اگر کوئی عیادت کرنے والا یہ جانے کہ بیمار پر اس کا زیادہ دیر تک بیٹھنا گراں نہیں گذر رہا ہے بلکہ دوست ہونے کی حیثیت سے یا برکت حاصل کرنے کی غرض سے اور یا خدمت دلداری کی وجہ سے مریض کی خواہش یہ ہے کہ وہ اس کے پاس زیادہ دیر تک بیٹھے تو اس صورت میں مریض کے پاس سے جلدی اٹھ کھڑا ہونا افضل نہیں ہوگا۔

4) عیادت کے آداب میں سے ہے کہ مریض اگر غریب ہو تو اس کے علاج کے لئے بقدر استطاعت رقم ہدیہ دے دے اور ضرورت مند نہ ہوتو مریض کے لئے مفید کھانے پینے کی کوئی چیز لے کر جائے۔

5) مریض کی شفا یابی کے لئے دعا کرے۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ: نبی کریم ﷺنے ارشاد فر مایا کہ : جب کوئی مسلمان کسی مسلمان کی عیادت کو جائے تو سات بار یہ دعا پڑ ھے۔اَسأَ لُ اللّٰہَ الْعَظِیْمَ ،رَبَّ الْعَرْشِ الْکَرِیْمِ اَنْ یَشْفِیْکَ۔(بزرگ وبرتر اللہ سے سوال کرتا ہوں جو عرش کریم کا مالک ہے ۔اس کا کہ تجھے شفا دے)حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فر مایا کہ : اگر موت نہیں آئی ہے تو شفا ہو جائے گی۔(تر مذی)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم جب کسی مریض کی عیادت کے لیے جاتے تو مریض سے فرماتے لاَ بَأْسَ، طَهُورٌ إِنْ شَاءَ اللَّهُ (بیماری سے غم نہ کھاؤ اس لئے کہ) یہ بیماری (گناہوں سے) پاک کرنے والی ہے اگر اللہ چاہے۔

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی مریض کی عیادت کو تشریف لے جاتے تو یہ دعا پڑھتے : اللَّهُمَّ رَبَّ النَّاسِ أَذْهِبْ الْبَاسَ اشْفِهِ وَأَنْتَ الشَّافِي لَا شِفَائَ إِلَّا شِفَاؤُکَ شِفَائً لَا يُغَادِرُ سَقَمًا " اے تمام انسانوں کے پروردگار ! اس بندے کی تکلیف دور فرما دے ، اور شفا عطا فرما دے ، تو ہی شفا دینے والا ہے ، بس تیری ہی شفا ہے ، ایسی کامل شفا عطا فرما ، جو بیماری کا اثر بالکل نہ چھوڑے۔(بخاری : 5675/مسلم :2191)

مریض کے لیے مسنون دعاؤں کے علاوہ دیگر دعاؤں کا بھی اہتمام کرے۔ اسی طرح مریض سے بھی دعا کی درخواست کی جائے اس لیے  کہ رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : جب تم بیمار کے پاس جاؤ تو اس سے کہو کہ تمہارے لئے دعا کرے کیونکہ اس کی دعا فرشتوں کی دعا کی طرح ہے۔ (ابن ماجہ)

اللہ تعالٰی ہم سب کے دلوں میں ایک دوسرے کی محبت اور غمخواری کا جذبہ پروان چڑھائے اور ہم سب کو اسلامی تعلیمات پر سو فیصد عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا الہ العلمین

2 تبصرے: