منگل، 19 فروری، 2019

نمازِ جنازہ کی امامت کا حقدار کون؟

سوال :

مفتی صاحب نماز جنازہ پڑھانے  کا پہلا حقدار محلے کا امام ہے یا قریبی رشتہ دار؟ وجہ معلوم کرنے کی یہ ہے  بعض لوگوں کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ جب قریبی پڑھائے  گا  تو دل سے دعا نکلے گی۔ براہ مہربانی جواب مرحمت فرمائے۔
(المستفتی :محمد توصیف، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : نمازِ  جنازہ  میں امامت  کا زیادہ حقدار مطلقاً نہ تو امام محلہ ہے اور نہ میت کا ولی، بلکہ کچھ شرائط کے ساتھ کبھی امام محلہ حقدار ہوتا ہے اور کبھی میت کا ولی ہوتا ہے۔

اگر اسلامی حکومت ہو تو نماز  جنازہ  کی  امامت  کا اولین حق دار حاکم وقت ہے، پھر اس کا نائب، وہ نہ ہو تو قاضیٔ شہر پھر اس کا نائب، اور اگر یہ لوگ موجود نہ ہوں یا حکومت اسلامی نہ ہو تو زندگی میں جس محلہ کی مسجد میں مرحوم نماز پڑھتا رہا ہو اور اس مسجد کے امام  کی  امامت  سے خوش رہا ہو تو وہ امام ولی میت کے مقابلہ میں اولیٰ اور بہتر ہے، بشرطیکہ وہ علم وتقویٰ میں ولی میت پر فوقیت رکھتا ہو، اور اگر مرحوم اس امام سے خوش نہ رہا ہو یا اس امام کے مقابلہ میں ولی میت علم وتقویٰ میں افضل ہو تو پھر ولی ہی کو اولویت حاصل ہوگی۔

فقہاء امت نے یہی اصول لکھا ہے اس میں دل سے دعا نکلنے نہ نکلنے کا کوئی مسئلہ نہیں ہے اور نہ ہی کسی علت کا ذکر ہے۔ نیز ملحوظ رہے کہ نماز جنازہ کوئی بھی پڑھائے نماز تو بہرصورت ہوجائے گی، اس لئے کہ نماز جنازہ میں امامِ محلہ اور ولی وغیرہ  کا مسئلہ افضل اور غیر افضل کا ہے، اس سے نماز کی صحت پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔

وتقدیم إمام الحی مندوبٌ فقط بشرط أن یکون أفضل من الولی، وإلا فالولی أولی کما فی المجتبی۔ (درمختار : ۳؍۱۲۰) قولہ: ثم إمام الحی إلی الطائفۃ وہو إمام المسجد الخاص بالمحلۃ وإنما کان أولی؛ لأن المیت رضی بالصلاۃ خلفہ فی حال حیاتہٖ، فینبغی أن یصلی علیہ بعد وفاتہٖ۔ قال فی شرح المنیۃ: فعلی ہٰذا لو علم أنہ کان غیر راض بہٖ حال حیاتہٖ ینبغی أن لا یستحب تقدیمہ۔ (شامی : ۳؍۱۱۹)

فإن صلی غیرہ أي غیر من لہ حق التقدم بلا إذن ولم یقتدبہ أعادہا ہو إن شاء ولا یعید معہ أي مع من لہ حق التقدم من صلی مع غیرہ۔ (مراقی الفلاح علی الطحطاوی، کتاب الصلاۃ، باب أحکام الجنائز، السلطان أحق بصلاتہ :۵۹۱)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
13 جمادی الآخر 1440

1 تبصرہ: