جمعہ، 1 فروری، 2019

طلاق کے بعد بچوں کی پرورش کا مسئلہ

*طلاق کے بعد بچوں کی پرورش کا مسئلہ*

سوال :

مفتی محترم طلاق ہونے کے بعد جو اولاد ہے اس میں بالغ اور نا بالغ دونوں ہیں ایسی صورت میں شرعاً اولاد پر کس کا حق ہوگا؟ بالغ اولاد کا کیا حکم ہے؟ اور نابالغ اولاد کا کیا حکم ہے؟ ہندوستانی قانون کے مطابق اولاد اگر سات سال سے کم عمر ہوتو اسے ماں کے پاس رہنے کا قانونی حق ہے اور اگر اولاد کی عمر سات سال سے اٹھارہ سال سے آگے ہو تو اولاد سے پوچھا جائے گا کہ وہ کس کے پاس رہنا پسند کرے گا؟ بحوالہ جواب مطلوب ہے۔
(المستفتی :اشفاق شبیر، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : طلاق کے بعد بچوں کی پرورش  کا حق والدہ کا ہے۔ وہ بچے کو اس وقت تک اپنے پاس رکھ سکتی ہے جب تک اسے کھانے، پینے، پہننے اور دیگر ضروریات میں ماں کی ضرورت پڑے۔ اور اس کی مدت لڑکے کے لئے سات برس اور لڑکی کے لئے نو برس یعنی بالغ ہونے تک شرعاً مقرر کی گئی ہے۔ لیکن اگر خدا نخواستہ والدہ مرتد ہوجائے یا بدچلن ہویا پاگل ہوجائے اور بچے کی حفاظت نہ کرسکے تو والدہ کا حق پرورش باطل ہوجاتا ہے۔ اور یہ حق اس کی نانی، پڑنانی پھر دادی، پڑ دادی۔ پھر خالہ پھوپھی وغیرہا کے لئے ثابت ہوجاتا ہے۔ البتہ ہر صورت میں بچوں کے نان و نفقہ کا ذمہ دار والد ہوتا ہے، خواہ بچے ددھیال میں رہیں یا ننہیال میں۔ اور مذکورہ مدت کے بعد والد کو اس بات کا اختیار ہوتا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو اپنے پاس رکھے۔

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو أَنَّ امْرَأَةً قَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ ابْنِي هَذَا کَانَ بَطْنِي لَهُ وِعَائً وَثَدْيِي لَهُ سِقَائً وَحِجْرِي لَهُ حِوَائً وَإِنَّ أَبَاهُ طَلَّقَنِي وَأَرَادَ أَنْ يَنْتَزِعَهُ مِنِّي فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْتِ أَحَقُّ بِهِ مَا لَمْ تَنْکِحِي۔ (السنن لأبی داود : ۳۱۰، کتاب الطلاق ، باب من أحق بالولد)

واذا وقعت الفرقۃ بین الزوجین فالام احق بأ لو لد… فان لم تکن لہ ام فام الام اولیٰ من ام الأب… فان لم تکن ام الام فام الأب اولیٰ من الا خوات… فان لم تکن لہ جدۃ فالاخوات اولیٰ من العمات… والام و الجدۃ أحق بالغلام حتی یا کل وحدہ ویشرب وحدہویلبس وحدہ ویستنجی وہدہ … والخصاف قدر الاستغنآء بسبع سنیں أ حق بالجاریۃ حتی تحیض باب حضانۃ الولد ومن أحق بہ وقد بستع وبہ یفتیٰ ۔ (درمختار مع الشامی، باب الحضانۃ، ۲/۸۸۱)

ونفقۃ الأولاد الصغار علی الأب، لا یشارکہ فیہا أحدکما لا یشارکہ فی نفقۃ الزوجۃ۔ (الہدایۃ، کتاب الطلاق، باب النفقۃ : ۲/۴۴۴)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
25 جمادی الاول 1440

5 تبصرے: