بدھ، 6 فروری، 2019

786 کی تحقیق اور اس کا شرعی حکم

*786 کی تحقیق اور اس کا شرعی حکم*

✍ محمد عامرعثمانی ملی

قارئین کرام ! ایک لاوارث تحریر بعنوان "786 کیا ہے؟" سوشل میڈیا بالخصوص واٹس ایپ پر بڑے زور و شور سے چلائی جارہی ہے، بعض سنجیدہ اور تھوڑا بہت علم رکھنے والے افراد بھی اسے پھیلاتے ہوئے دیکھے جارہے ہیں اور بعض حضرات اس تحریر سے مرعوب بھی نظر آئے، کئی حلقوں میں اس کے متعلق سوالات بھی ہوئے ہیں، جس کا علماء اپنے علم کے مطابق سرسری جواب بھی دے رہے ہیں، تاہم ضروری ہے کہ اکابر علماء کرام کی تحریروں کی روشنی میں اس لاوارث و یتیم تحریر کا مفصل جائزہ لیا جائے تاکہ تذبذب اور غیریقینی صورت حال کا خاتمہ ہو اور صحیح مسئلہ کی طرف عوام الناس کی رہنمائی ہو۔

سب سے پہلے تو عوام کو یہ بات اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ کسی بھی عجیب وغریب اور لاوارث تحریر پر اندھا دھند یقین کرنے اور اسے پھیلانے سے پہلے محقق اور جید علماء کرام سے اس کی تحقیق کروالی جائے۔ تاکہ کسی بھی قسم کی گمراہی کا پہلے ہی مرحلے سدباب ہوجائے۔ اور سوشل میڈیائی پردہ نشین محککین جو اپنا نام تک تحریر کے ساتھ لکھنے کی ہمت نہیں رکھتے ان کی سازشیں ناکام ہوجائیں۔

محترم قارئین! اس لاوارث تحریر میں 786 کو ہرے کرشنا  کا مجموعہ بتایا گیا ہے، اور بسم اللہ الرحمن الرحیم کا عدد 787 ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ صاحب تحریر کو علم الاعداد کے قواعد سے عدم واقفیت کی وجہ سے یہ غلطی ہوئی ہے۔ انہوں نے ”الرحمن‘‘ کے عدد 330 شمارے کیے ہیں، جب کہ اس کے عدد 329 ہیں، کیونکہ علم الاعداد میں لکھے ہوئے حروف کا اعتبار ہوتا ہے، نہ کہ پڑھے جانے والے حروف کا۔

گلبن تاریخ میں قواعد میں لکھا ہے : تاریخ میں کتابت کا اعتبار ہے، نہ سماع و قیاس و تلفظ کا‘‘۔ (ص:۵)

نیز آگے لکھتے ہیں : تاریخ میں جتنے حروف لکھے جاتے ہیں اگرچہ ان کو پڑھا نہ جاتا ہو تب بھی ان کے عدد محسوب ہوتے ہیں۔ الرحمن میں جب کھڑا زبر میں الف کا عدد لیا جائے تو حرکات ثلاثہ زبر، زیر، پیش اور جزم وغیرہ نے کیا قصور کیا ہے؟
اسی بنا پر حرف مدغم و مشدد مثلاً نبیّ، وصیّ، فرّخ، وخرّم میں صرف ایک "ی" اور ایک "ر" کے عدد لیے جاتے ہیں، پس الف ممدودہ کا ایک ہی عدد ہوگا۔(ص :۹)

معلوم ہوا کہ حرکات خواہ زبر، زیر، پیش ہوں یا کھڑا زبر، کھڑی زیر، الٹا پیش ہوں ان کے اعداد شمار نہیں ہوتے۔ اسی طرح حرف مشدد ومدغم میں ایک ہی حرف شمار کیا جاتا ہے۔

چنانچہ رحمان کو اگر الف کے ساتھ لکھیں تو اس کے عدد 330 ہوں گے اور اگر بغیر الف کے اس طرح لکھیں ’رحمن‘ تو اس کے عدد 329 ہوں گے، جیسے لفظ مولانا کو اگر الف سے لکھیں یعنی ”مولانا‘‘ تو اس کے عدد 128 ہوں گے اور اگر یاء کے ساتھ لکھیں مثلاً "مولینا" تو اس کے عدد 137 ہوں گے۔معلوم ہوا کہ بسم الله الرحمن الرحیم کے عدد 786 ہی ہیں، جو شروع سے سب حضرات لکھتے چلے آرہے ہیں۔ ان کی تفصیل ملاحظہ فرمائیں ۔
ب = 2
س = 60
م = 40
ا = 01
ل = 30
ل = 30
ہ = 5
ا = 01
ل = 30
ر = 200
ح = 8
م = 40
ن = 50
ا = 1
ل = 30
ر = 200
ح = 8
ی = 10
م = 40
ان اعداد کو جمع کرلیا جائے تو ان کا مجموعہ 786 ہوگا۔
اب رہ گئی یہ بات کہ یہ عدد ہرے کرشنا کے بھی بنتے ہیں، اس لیے نہیں لکھنا چاہیے تو یہ بالکل فضول اور بے دلیل بات ہوئی، اس لئے کہ ہرے کرشنا غیرعربی ہندی اور سنسکرت کا لفظ ہے، اسےعربی الفاظ واعداد کی جگہ رکھنا صریح حماقت ہے، اسی طرح 786 اعداد کے اور بہت سے لفظ بنائے جا سکتے ہیں۔ مثلاً  شہزادہ سلمہ الرحمن، ملک صورت، ذبیح الله، تاج العرفا، اس لیے کسی کلمہ کے اعداد کا دوسرے کلمہ سے ملنا کوئی بڑی بات نہیں۔

نیز فقہ کا قاعدہ ہے : المعروف کالمشروط ۔جس سے معلوم ہوتا ہے کہ عرف کا اعتبار کیا جاتا ہے اور عرف میں 786 بسم الله الرحمن الرحیم کے لیے لکھا جاتا ہے نہ کہ ہرے کرشنا کے لیے، جب لکھنے والے کی اس سے مراد بسم اللہ ہے تو ہرے کرشنا کیونکر لیا جائے گا؟ اور بسم اللہ کی جگہ 786 لکھنے کی وجہ یہ ہے کہ بسم الله الرحمن الرحیم چونکہ قرآنِ کریم کی ایک مستقل آیت ہے، جس کو بے وضو ہاتھ لگانا اور جس پر غسل واجب ہو اس کے لیے پڑھنا جائز نہیں ہے، اس لیے خطوط وغیرہ کے سرنامہ پر اور ان جگہوں پر جہاں بے ادبی کا اندیشہ ہو بجائے بسم اللہ کے 786 لکھ دیتے ہیں تا کہ بسم الله کی بے ادبی سے بچا جا سکے اور خط پڑھنے والا ان اعداد کو دیکھ کر سمجھ لے کہ مجھے یہاں بسم اللہ پڑھنی چاہیے اور حدیث شریف میں مذکور وعید " كل أمر ذي بال لم يبدأ بسم الله فهو اقطع وابتر" ترجمہ: ہر اچھا  کام جو بسم اللہ سے شروع نہ ہو تو وہ دم بریدہ یعنی خیر و برکت سے خالی ہوتا ہے۔"سے محفوظ رہے۔ واضح رہے کہ 786 کا حکم بسم الله کا نہیں، کہ بے وضو ہاتھ لگانا جائز نہ ہو، نا یہ بسم الرحمن الرحیم ہے، نہ اس کا بدل اور قائم مقام ہے، بلکہ یہ کاتب کی طرف سے صرف اس بات کی علامت ہے، کہ میں نے اس تحریر سے پہلے بسم اللہ پڑھی ہے، تم بھی پڑھ لینا۔ اس حد تک اس میں کوئی حرج نہیں نہ ہی شرعاً ممنوع ہے، بلکہ قریبی سلف صالحین سے اس کا استعمال ثابت ہے، لہٰذا اسے شرکیہ کلمہ یا بدعت قرار دینا سخت غلطی ہے اور لاعلمی کی دلیل ہے، جیسا کہ اس لاوارث تحریر میں ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی گئی ہے۔

اسی طرح صاحبِ تحریر کا طنز کہ اگر کسی نام کے اعداد کا مجموعہ 420 ہو اور کوئی اسے نام کے بجائے مسٹر 420 کہہ کر پکارے تو اس کا ردِ عمل کیا ہو گا؟ اس بے جوڑ طنز کا رد بھی اس طرح ہوتا ہے کہ جب 786 کو بسم اللہ کا قائم مقام سمجھا ہی نہیں گیا ہے بلکہ بعض مقامات پر بے ادبی سے بچانے کے لیے اسے بطور علامت لکھا جاتا ہے تو ظاہر ہے ہر جگہ اس کا استعمال بے جا اور احمقانہ ہی کہلائے گا۔
امید ہے کہ درج بالا تفصیلات سے اس لاوارث تحریر کا بطلان واضح ہوگیا ہوگا۔ علاوہ ازیں ان لوگوں کے عقائد کی بھی تردید ہوجاتی ہے جو 786 کے عدد کو بسم اللہ کی طرح بابرکت یا لَکی سمجھتے ہیں۔(مستفاد : 786 کی تحقیق، مولانا خلیل احمد تھانوی)فقط
واللہ تعالٰی اعلم

4 تبصرے:

  1. محققین کی کتابت کی تصحیح کریں۔
    جزاک اللہ خیرا و احسن الجزاء فی الدارین

    جواب دیںحذف کریں
  2. السلام علیکم ورحمۃ اللہ مفتی صاحب
    اللہ تعالیٰ آپکو جزائے خیر عطا فرمائے

    جواب دیںحذف کریں