جمعرات، 27 دسمبر، 2018

زنا کی مرتکب بیوی کو طلاق دینا ضروری ہے؟

*زنا کی مرتکب بیوی کو طلاق دینا ضروری ہے؟*

سوال :

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ ھندہ جو کہ شادی شدہ ہے اور اس کا غیر مرد سے ناجائز تعلق ہے ایسی حرکت کرنا شرعاً کیا حکم رکھتا ہے؟
اب ایسی صورت میں ھندہ کا شوہر کیا کرے طلاق دے یا نہ دے شریعت کی اس معاملے میں کیا راہنمائی ہے؟
(المستفتی : محمد توصیف، مالیگاؤں)
----------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : شریعت مطھرہ میں زنا کو کبیرہ گناہ بتایا گیا ہے، جس پر قرآن و حدیث میں سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں، اور بروز حشر ایسے لوگوں کا انجام انتہائی دردناک ہوگا۔

چنانچہ معراج کی شب آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو زناکاروں کو ہورہا عذاب دکھایا گیا کہ ایک جگہ تنور کی طرح ایک گڑھا ہے جس کا منہ تنگ ہے اور اندر سے کشادہ ہے برہنہ مرد و عورت اس میں موجود ہیں اور آگ بھی اس میں جل رہی ہے جب آگ تنور کے کناروں کے قریب آجاتی ہے تو وہ لوگ اوپر اٹھ آتے ہیں اور باہر نکلنے کے قریب ہوجاتے ہیں اور جب آگ نیچے ہوجاتی ہے تو سب لوگ اندر ہوجاتے ہیں۔

اور اسلامی حکومت میں اگر غیرشادی شدہ لڑکی یا لڑکا زنا کرے تو اسے سو کوڑے سزا کے طور پر مارے جائیں گے، اور اگر شادی شدہ مرد و عورت یہ قبیح اور غلیظ عمل کریں تو انہیں سنگسار یعنی پتھر سے مار مار کر ہلاک کردیا جائے گا۔

صورت مسئولہ میں ہندہ اپنے اس قبیح و شنیع فعل کی وجہ سے سخت گناہ گار ہوئی ہے، لیکن ہمارے یہاں چونکہ اسلامی حکومت نہیں ہے، اس لئے اس پر سنگسار کرنے کی سزا عائد نہیں کی جاسکتی ہے، اس لئے ہندہ پر لازم ہے کہ سچے اورخالص دل سے توبہ کرکے اپنی اس حرکت پر نادم ہو، اگر وہ سچے دل سے توبہ استغفار کرلیتی ہے تو امید ہے کہ اس کا گناہ معاف ہوجائے گا، اور شوہر کو اس پر اطمینان ہوجائے کہ آئندہ وہ ایسی حرکت نہیں کرے گی، تو وہ اسے اپنے نکاح میں رکھنا چاہتا ہوتو رکھ سکتا ہے، شرعاً کوئی ممانعت نہیں ہے، اس لئے کہ ہندہ کے زنا کی وجہ سے نکاح پر کوئی اثر نہیں ہوتا، بلکہ نکاح باقی رہتا ہے۔

البتہ اگر شوہر کو اس کے ساتھ نباہ مشکل نظر آرہا ہو اور اس کے ساتھ رہنے میں شرعی حدود پر قائم نہ رہ سکتا ہوتو پاکی کی حالت میں ایک طلاق دے کر اپنے نکاح سے خارج کرسکتا ہے، اس صورت میں شوہر شرعاً گناہ گار نہیں ہوگا۔

قال اللہ تعالٰی : الزَّانِیَۃُ وَالزَّانِیْ فَاجْلِدُوْا کُلَّ وَاحِدٍ مِنْہُمَا مِئَۃَ جَلْدَۃٍ۔ (سورۃ النور : جزء آیت۲)

أخرج البیہقي عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہما حدیثا فیہ … قال: کان الرجل إذا زنی أو أذی في التعبیر وضرب النعال فأنزل اللّٰہ عزوجل بعد ہٰذا: الزانیۃ والزاني فاجلدوا کل رجما في سنۃ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، وہٰذا سبیلہما الذي الذي جعل اللّٰہ لہما۔ (السنن الکبریٰ للبیہقي، الحدود، باب ما یستدل بہ الخ، رقم : ۱۷۳۸۸)

قال اللہ تعالی : قُلْ یَا عِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰی اَنْفُسِہِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَحْمَةِ اللّٰہِ اِنَّ اللّٰہَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا اِنَّہُ ہُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ (سورہٴ زمر، آیت : ۵۳)

وقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : التائب من الذنب کمن لا ذنب لہ ۔ رواہ ابن ماجہ والبیہقی في شعب الإیمان

ولا یجب علی الزوج تطلیق الفاجرۃ و لاعلیہا تسریح الفاجر، إلا إذا خافا أن لا یقیما حدود اللہ فلا بأس أن یتفرقا۔ (البحر الرائق : ۳/۱۸۸)

فالأحسن : أن یطلق الرجل امرأتہ تطلیقۃ واحدۃ في طہر لم یجامعہا فیہ، ویترکہا حتی تنقضي عدتہا۔ (ہدایۃ، کتاب الطلاق، باب طلاق السنۃ، ۲/۳۵۴)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
20 ربیع الآخر 1440

5 تبصرے: