بدھ، 12 دسمبر، 2018

نکاح میں وکیل کا مسلمان ہونا شرط نہیں

*نکاح میں وکیل کا مسلمان ہونا شرط نہیں*

سوال :

کیا نکاح کے وکیل کا مسلمان ہونا شرط نہیں ہے ؟
عورت سے کلمہ کفر صادر ہوجانے سے بیوی شوہر کے نکاح سے نہیں نکلتی ہے۔ کیا یہ مسئلہ درست ہے؟
مدلل جواب ارسال فرمائیں نوازش ہوگی ۔
(المستفتی : مولوی عبدالمتین، مالیگاؤں)
---------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : ولی اور  وکیل میں فرق ہے، نکاح میں  وکیل  کا کام صرف الفاظ کی تعبیر تک رہتا ہے، اصل ایجاب وقبول زوجین کا ہوتا ہے، لہٰذا وکیل بنانے کے لئے مسلمان  ہونا ضروری نہیں ہے، غیرمسلم کو  وکیل  بنانے کا ثبوت ابوداؤد شریف کی درج ذیل روایت سے ملتا ہے ۔

حضرت جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ وہ فرماتے ہیں میں نے ارادہ کیا خیبر کی طرف جانے کا تو میں حضور ﷺ کے پاس حاضر ہوا آپ کو سلام کیا اور آپ سے کہا کہ میں نے خیبر جانے کا ارادہ کیا ہے حضور نے فرمایا کہ وہاں جب تم میرے وکیل سے ملو تو اس سے پندرہ وسق کھجوریں لے لینا اگر وہ تم سے کوئی علامت طلب کرے تو اپنا ہاتھ اس کے گلے پر رکھ دینا ۔ (١)

اس حدیث میں وکیل سے مراد خیبر کا یہودی وکیل ہے جس سے معلوم ہوا کہ غیر مسلم  وکیل بن سکتا ہے ۔

٢) یہ بات درست ہے کہ عورت کے قصداً کلمہ کفر کہنے سے نکاح ختم نہیں ہوتا ہے، البتہ نکاح باقی رہنے کے ساتھ ساتھ اس وقت تک شوہر کے لئے صحبت وغیرہ کرنا جائز نہیں ہے، جب تک عورت تجدید ایمان نہ کرے، اس لئے تجدید ایمان اور احتیاطاً تجدید نکاح دونوں ہوجانے کے بعد صحبت کرنا جائز ہوسکتا ہے ۔ (الحیلۃ الناجزۃ/ ۱۰۵-۱۰۶، احسن الفتاوی ۱/ ۳۹/فتاوی قاسمیہ)

١) حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا عَمِّي ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِي نُعَيْمٍ وَهْبِ بْنِ كَيْسَانَ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، أَنَّهُ سَمِعَهُ يُحَدِّثُ، قَالَ : أَرَدْتُ الْخُرُوجَ إِلَى خَيْبَرَ، فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ وَقُلْتُ لَهُ : إِنِّي أَرَدْتُ الْخُرُوجَ إِلَى خَيْبَرَ. فَقَالَ : " إِذَا أَتَيْتَ وَكِيلِي فَخُذْ مِنْهُ خَمْسَةَ عَشَرَ وَسْقًا، فَإِنِ ابْتَغَى مِنْكَ آيَةً فَضَعْ يَدَكَ عَلَى تَرْقُوَتِهِ ۔ (سنن ابی داؤد، حدیث نمبر 3632)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
05 ربیع الآخر 1440

1 تبصرہ:

  1. فقہی حوالہ ماخذ اول سے اس فتوے میں نہیں ہے۔۔۔باقی تحقیق اچھی کی گئی ہے۔ ۔

    جواب دیںحذف کریں