ہفتہ، 1 دسمبر، 2018

دَم اور تعویذ کی شرعی حیثیت

*دَم اور تعویذ کی شرعی حیثیت*

سوال :

دریافت طلب مسئلہ یہ ہے کہ قرآنی آیات مسنون دعائیں یا وہ عربی عبارتیں جس میں شرکیہ کلمات نا ہوں ان کا پڑھ کر پانی پر دم کرنا اسی طرح لوبان پر اگربتی پر کھانے کی اشیاء پر دواؤں پر یا مریض پر دم کرنے سے اثر ظاہر ہوسکتا ہے؟
اسی طرح تعویذات جس میں مذکورہ بالا چیزیں لکھیں ہوں ان کے  پہننے سے اثرات ظاہر ہوسکتے ہیں؟ شریعت میں ہمارے لئے کیا رہنمائی ملتی ہے؟
کوئی شخص یہ عقیدہ رکھتے ہوئے بطور علاج کے ان اشیاء کا استعمال کرتا ہے کہ شفاء دینے والی ذات اللہ کی ہے تو کیا علاج کی غرض سے کرسکتا ہے ؟

مذکورہ بالا اشیاء میں اگربتی جس کے بارے میں ایسی بات کہی جاتی ہے کہ اس کے بنانے میں گوبر کا استعمال ہوتا ہے اگر اس کو صحیح مان لیا جائے تو کیا دم کرسکتے ہیں ؟
یہ بات محقق نہیں ہے کہ ہر اگر بتی میں گوبر شامل کیا جائے اس لئے کہ بطور ایندھن کے بھوسہ بھی استعمال ہوتا ہے
مذکورہ بالا سوالات کے جوابات قرآن، حدیث، آثار صحابہ، اکابرین کے معمولات کی روشنی عنایت فرماکر عنداللہ ماجور ہوں ۔
(المستفتی : رافع الدین ملی، مالیگاؤں)
---------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : آثار صحابہ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ تعویذ لکھنا یا پہننا مطلقاً ناجائز اور حرام نہیں ہے ۔ بلکہ رقیہ اورتعویذ تین شرطوں کے ساتھ جائز اور درست ہے ۔

١) وہ تعویذ جو آیات قرآنیہ، اسمائے حسنی یا مسنون دعاؤں وغیرہ پرمشتمل ہو اور اس میں کوئی ایسا کلمہ نہ ہو جس میں اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور سے مدد مانگی گئی ہو ۔

٢) تعویذ میں لکھے ہوئے کلمات ایسے ہو‌ں جن کے معنی معلوم ہوں ۔

٣) تیسری شرط یہ ہے کہ عقیدہ یہ ہو کہ یہ تعویذ مؤثربالذات نہیں ہے، بلکہ اسکی حیثیت صرف دوا کی ہے، مطلب یہ عقیدہ یہ ہو کہ اگر اللہ تعالیٰ اس میں اثر ڈال دیں تو اس سے فائدہ ہوگا، ورنہ نہیں ۔

مذکورہ تینوں شرائط میں سے اگر ایک بھی شرط مفقود ہوتو ایسی تعویذ لکھنا یا پہننا  بلاشبہ ناجائز اور حرام ہوگا ۔

تعويذ لکھنا اگرچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ سے ثابت نہیں لیکن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سےتعویذ لکھنا ثابت ہے، چنانچہ ابو داؤد شريف میں حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو یہ الفاظ سکھائے تھے "أَعُوذُ بِکَلِمَاتِ اللَّهِ التَّامَّةِ مِنْ غَضَبِهِ وَشَرِّ عِبَادِهِ وَمِنْ هَمَزَاتِ الشَّيَاطِينِ وَأَنْ يَحْضُرُونِ"
اور حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کا یہ معمول تھا کہ وہ ان کلمات کو اپنے سمجھ دار بچوں کو یاد کراتے تھے اور جو بچے چھوٹے اور سمجھ دار نہ ہوتے ان کے گلے میں یہ کلمات لکھ کر ڈال دیتے ۔

حَدَّثَنَا مُوسَی بْنُ إِسْمَعِيلَ حَدَّثَنَا حَمَّادٌ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَقَ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کَانَ يُعَلِّمُهُمْ مِنْ الْفَزَعِ کَلِمَاتٍ أَعُوذُ بِکَلِمَاتِ اللَّهِ التَّامَّةِ مِنْ غَضَبِهِ وَشَرِّ عِبَادِهِ وَمِنْ هَمَزَاتِ الشَّيَاطِينِ وَأَنْ يَحْضُرُونِ وَکَانَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ يُعَلِّمُهُنَّ مَنْ عَقَلَ مِنْ بَنِيهِ وَمَنْ لَمْ يَعْقِلْ کَتَبَهُ فَأَعْلَقَهُ عَلَيْهِ
( سنن ابي داؤد ٢/ ٦٤٩)

حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کے اس عمل سے بالکل صاف اور واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ تعویذ لکھنا اور پہننا جائز اور درست ہے ۔

فیہ دلیل علي جواز كتابۃ التعويذ والرقيۃ وتعليقها ۔ (بذل المجهود ١١ /٦٢٢)

اب رہی بات ان احادیث کی جن میں تعویذ کی ممانعت اور تعویذ پہننے والوں کی مذمت بیان کی گئی ہے تو وہاں تعویذ سے مراد مطلقاً تعویذ مراد نہیں ہے بلکہ وہ تعویذ مراد ہے جس میں شرکیہ الفاظ اور غیراللہ سے مدد طلب کی گئی ہو یا ایسے الفاظ ہوں جن کے معنی معلوم نہ ہوں یا پھر یہ احادیث اس صورت پرمحمول کی جائیں گی جب کہ تعویذ ہی کو مؤثربالذات اور نفع و نقصان کا مالک سمجھاجائے ۔

چنانچہ شیخ الاسلام مفتی محمدتقی صاحب عثمانی دامت برکاتہم مسلم شریف کی شرح "تکملہ فتح الملہم" میں یہی لکھتے ہیں :

وأما الأحاديث التي ورد فيها النهى عن الرقي،أو الأ حاديث التى أثنى فيها على الذين لا يسترقون، فإنها محمولة على رقي الكفار التي تشتمل على كلمات الشرك أو الاستمداد بغير الله تعالى أو الرقي التي لا يفهم معناها فإنها لايؤمن أن تؤدي إلى الشرك فمنع إحتياطا ۔ ( تكملہ فتح الملهم، ١٠ / ٢٥٧ )

امید ہے کہ درج بالا تفصیلات سے آپ کو تعویذ کی شرعی حیثیت کا علم ہوگیا ہوگا اور جب تعویذ لکھنا اور پہننا جائز ہے تو قرآنی آیات وغیرہ کا کسی پاک چیز پر دم کرنا اور اس کا استعمال کرنا بدرجہ اولٰی جائز ہوگا ۔

اسی طرح اگربتی کے متعلق جب تک کہ یقینی طور پر معلوم نہ ہوجائے کہ اگربتی میں جانوروں کا فضلہ ملا ہوا ہے اور وہ اپنی اصلی ہیئت پر باقی ہے تب تک اس پر دم کرنے کو ناجائز نہیں کہا جائے گا ۔

(لإنقلاب العین) فإذا صار ملحاً ترتب حکم الملح، ونظیرہ فی الشرع النطفۃ نجسۃ وتصیر علقۃ وہی نجسۃ، وتصیر مضغۃ فتطہر، والعصیر طاہر فیصیر خمراً فینجس، ویصیر خلاً فیطہر، فعرفنا أن استحالۃ العین تستتبع زوال الوصف المرتب علیہا ۔ (۱/۴۶۳، کتاب الطہارۃ ، مطلب : العرقی الذی یستقطر من دردیّ الخمر نجس حرام، شامی)

الیقین لا یزول بالشک ۔ (۱/۲۲۰، الاشباہ والنظائر)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
23 ربیع الاول 1440

4 تبصرے:

  1. عبداللہ بن عمر کے بجائے عبداللہ بن عمرو ہونا چاہیے۔ واللہ اعلم

    رضی اللہ عنہ

    جواب دیںحذف کریں
  2. *جَــــــــزَاک الــلّٰــهُ خَـــــيْراً*

    جواب دیںحذف کریں
  3. کچھ تعویذ میں فرشتوں کے نام بھی لکھے ہوئے دیکھے گئے ہیں...؟

    جواب دیںحذف کریں
  4. اگر کوٸ شخص کوٸ تعویذ دے اور تعویذ کی پشت پر ٧ جوتے مارنے کا کہے تو اسکا کیا حکم ہے

    جواب دیںحذف کریں