پیر، 31 دسمبر، 2018

مکروہ اوقات میں نماز جنازہ ادا کرنے کا حکم

*مکروہ اوقات میں نماز جنازہ ادا کرنے کا حکم*

سوال :

کیا فرماتے ہیں علماء کرام و مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ کیا مکروہ اوقات (طلوع آفتاب، زوال و غروب آفتاب) میں نماز جنازہ پڑھایا جاسکتا ہے؟ زید کہتا ہے کہ جس طرح فرض ونفل نماز پڑھنا مکروہ ہے اسی طرح نماز جنازہ بھی پڑھنا مکروہ ہے، مگر بکر کہتا ہے کہ مکروہ اوقات میں وہ نمازپڑھنا مکروہ ہے جس نماز میں سجدہ ہے اور نماز جنازہ میں سجدہ نہیں ہے اس لئے نماز جنازہ پڑھنا جائز ہے؟
قرآن وسنت کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں۔
(المستفتی : حافظ انصاری سفیان ملی، مالیگاؤں)
----------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : اوقاتِ ثلاثہ ممنوعہ طلوع، غروب اور زوال آفتاب کے وقت ہر قسم کی نماز بشمول نماز جنازہ ادا کرنا مکروہ تحریمی ہے، اس لئے کہ مسلم شریف کی روایت میں ہے کہ حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ تین اوقات میں ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے روکا ہے کہ ہم اس میں نماز پڑھیں اور اپنے مردے کا نماز جنازہ پڑھیں : سورج طلوع ہوتے وقت، یہاں تک کہ بلند ہو جائے، اور ٹھیک دوپہر کے وقت میں یہاں تک کہ سورج ڈھل جائے، اور غروب کے لئے جائے، جب تک کہ غروب نہ ہو جائے۔

البتہ ایک روایت یہ بھی ملتی ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : علی ! تین باتوں کے کرنے میں دیر نہ کیا کرنا۔ ایک تو نماز ادا کرنے میں جب کہ وقت ہو جائے، دوسرے جنازے میں جب تیار ہو جائے اور تیسری بے خاوند عورت کے نکاح میں جب کہ اس کا کفو (یعنی ہم قوم مرد) مل جائے۔

اس روایت کی وجہ سے احناف کا موقف یہ ہے کہ اگر عین طلوع وغروب یا زوال کے وقت جنازہ نماز کے لئے لایا گیا تو اسی وقت نماز جنازہ پڑھنے میں کوئی حرج نہیں، لیکن اگر جنازہ پہلے لایا جاچکا تھا اور ابھی نماز نہیں پڑھی گئی تھی کہ مکروہ وقت شروع ہوگیا تو اب مکروہ وقت میں نماز جنازہ نہیں پڑھی جائے گی، بلکہ مکروہ وقت ختم ہونے کے بعد ہی نماز پڑھنا درست ہوگا۔

عن عقبۃ بن عامر الجہنی رضي الله عنہ: ثلاث ساعات کان رسول الله صلی الله علیہ وسلم ینہانا أن نصلي فیہن وأن نقبر فیہن موتانا: حین تطلع الشمس بازغۃ حتی ترتفع، وحین یقوم قائم الظہیرۃ حتی تمیل، وحین تضیف للغروب حتی تغرب۔ (لصحیح مسلم، کتاب الصلاۃ، باب الأوقات التي نہی عن الصلوٰۃ فیہا، النسخۃ الہندیۃ ۱؍۲۷۶، بیت الأفکار، رقم: ۸۳۱)

و قال ابن المبارک : معنی ھذا الحدیث أن نقبر فیھن موتانا ، یعنی الصلاة علی الجنازة و کرہ الصلاة علی الجنازة عند طلوع الشمس و عند غروبھا ۔ ( تر مذی شریف ، باب ما جاء فی کراھیة الصلاة علی الجنازة عند طلوع الشمس و عند غروبھا ، ص ٢٤٩، نمبر ١٠٣٠)

عن علي بن أبي طالب أن رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم قال لہ: یا علي ثلاث لاتؤخرہا: الصلاۃ إذا آنت، والجنازۃ إذا حضرت، والأیم إذا وجدت لہا کفؤًا۔ (ترمذي شریف، باب ما جاء في تعجیل الجنازۃ، النسخۃ الہندیۃ ۱/۲۰۶، مکتبۃ دار السلام رقم:۱۰۷۵)

فلو وجبتا فیہا لم یکرہ فعلہما أی تحریماً وفی التحفۃ : الأفضل أن لا تؤخر الجنازۃ۔ قولہ : وفی التحفۃ فثبتت کراہۃ التنزیہ فی سجدۃ التلاوۃ دون صلاۃ الجنازۃ۔ (درمختار : ۲؍۳۰ تا ۳۵)

ولا یصلی علی جنازۃ ولا یسجد لتلاوۃ فی ہٰذا الوقت فإنہ لا یجوز قطعاً ولو وجبتا فی ہٰذا الوقت وادیتا فیہ جاز الخ۔ (شامی : ۲؍۳۴)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
23 ربیع الآخر 1440

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں