بدھ، 5 دسمبر، 2018

کالا خضاب استعمال کرنے کا حکم

*کالا خضاب استعمال کرنے کا حکم*

سوال :

کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے کہ مرد وعورت کے لئے کالے خضاب کا استعمال کرنا کیسا ہے؟  اور کیا جوانی میں کالا خضاب لگانے کی رخصت ہے؟ براہ کرم مفصل جواب عنایت فرماکر عنداللہ ماجور ہوں۔
(المستفتی : محمد زبیر، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : حدیث میں کالا خضاب لگانے کی ممانعت وارد ہوئی ہے۔ اور عام حالات میں مرد و عورت دونوں کے لیے کالے خضاب کا استعمال (خواہ سر میں ہو یا داڑھی میں) مکروہ تحریمی قرار دیا گیا ہے۔

معلوم ہونا چاہیے کہ بالوں کو رنگنے والی ہر چیز کو خضاب کہا جاتا ہے، خواہ وہ مہندی ہو یا اور کوئی پاؤڈر یا لوشن۔ بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ مہندی خواہ کالی ہی کیوں نہ ہو اسے لگانا جائز ہے، مہندی کے علاوہ اگر کوئی کیمکل ہوتو اس میں کالا رنگ لگانا جائز نہیں ہے، سرخ رنگ لگاسکتے ہیں۔ جبکہ صحیح بات یہ ہے کہ کالا رنگ خواہ مہندی ہو یا کوئی اور کیمکل اس کا لگانا جائز نہیں ہے۔

خضاب دو طرح کے ہوسکتے ہیں ایک تو تیل کی طرح سیّال ہوتا ہے اس کے لگانے سے کوئی پرت نہیں جمتی، ایسے خضاب کا لگانا بلاتردد جائز ہے اور اس حالت میں وضو اورغسل بھی صحیح ہوتا ہے۔ اور اگر خضاب ایسا ہو جس کے لگانے سے بالوں پرت جم جاتی ہے، اسے لگانا تو درست ہے لیکن اسے چھڑائے بغیر وضو اورغسل صحیح نہ ہوگا۔ عموماً خضاب پہلی ہی قسم کا بازاروں میں ملتا ہے، لہٰذا اس سلسلے میں تشویش میں مبتلا نہ ہوں۔

کالے خضاب کے علاوہ کسی بھی رنگ کا خضاب استعمال کرسکتے ہیں۔ لیکن اس بات کا خیال رہے کہ اس میں کسی حرام اور ناپاک شئے کی آمیزش نہ ہو۔ اور فیشن کے طور پر نہ کیا جائے جیسا کہ آج کل کے نوجوان فاسق فاجر اداکاروں کی مشابہت میں کرتے ہیں۔

البتہ شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی صاحب کی رائے یہ کہ جوانی میں بالوں کا سفید ہوجانا عیب ہے، اور عیب دور کرنا مذکورہ ممانعت میں داخل نہیں اس لیے جوانی میں بال سفید ہوجائیں تو کالے خضاب کا استعمال کرسکتے ہیں۔ اسی طرح کالے خضاب کی ممانعت کی ایک وجہ دھوکہ دہی ہے کہ عمر زیادہ ہوگئی، بال سفید ہوگئے لیکن سیاہ خضاب لگاکر لوگوں کو دھوکہ دیا جا رہا ہے کہ میں ابھی بھی جوان اور کم عمر ہوں، جبکہ جوانی میں بال سفید ہونے کی وجہ سے سیاہ خضاب لگانا دھوکہ دینا نہیں بلکہ حقیقت کا اظہار ہے، اس لیے جوان کے لیے کالا خضاب لگانا جائز ہوگا۔ (مستفاد : دار الافتاء دار العلوم کراچی
فتوی نمبر :97/475)

اب جوانی کا اطلاق کتنی عمر پر ہوتا ہے؟ اس میں علماء کا اختلاف ہے، بعض اہل علم نے یوں فتوی دیا ہے کہ جوانی کی عمر میں کالا خضاب لگاسکتے ہیں، عمر کی کوئی تحدید نہیں کی، جبکہ بعض نے چالیس سال کی تحدید کی ہے کہ چالیس سال تک لگاسکتے ہیں، اس کے بعد نہیں۔

تاہم بہتر اور احوط یہی ہے کہ جوانی میں بھی کالے خضاب کے علاوہ کسی اور رنگ کا خضاب استعمال کیا جائے، مثلا : سرخ، زرد، سرخی مائل سیاہ یا گہرا براؤن خضاب استعمال کیا جائے جس کے جائز ہونے میں کسی کا اختلاف نہیں ہے، لیکن اگر کوئی نوجوان کالا خضاب لگالے تو امید ہے کہ گناہ گار نہ ہوگا۔

عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہما قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: یکون قوم یخضبون في آخر الزمان بالسواد کحواصل الحمام، لا یریحون رائحۃ الجنۃ۔ (سنن أبي داؤد / باب ما جاء في خضاب السواد ۲؍۵۷۸)

یستحب الاختضاب بالحناء الکتم - إلی قولہ - الاختضاب بالورس والزعفران یستارک الاختضاب بالحناء والکتم في الأصل الاستحباب۔ (الموسوعۃ الفقہیۃ : ۲؍۲۷۹)

أما الخضاب بالسواد للغزاۃ لیکون أہیب في عین العدو فہو محمود منہ، اتفق علیہ المشائخ رحمہم اللّٰہ، ومن فعل ذٰلک لیزین نفسہ للنساء ولیحبِّب نفسہ إلیہن فذٰلک مکروہ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ، کتاب الکراہیۃ / الباب العشرون في الزینۃ، ۵/۳۵۹)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
21 جمادی الآخر 1439

10 تبصرے:

  1. حضرت شیخ الاسلام کی رائے جو آپ نے لکھی ہے
    اس کی اصل چاہیے
    براہ کرم رہنمائی فرمائیں

    جواب دیںحذف کریں
  2. السلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ
    ماشاءاللہ ،جواب اتمینان بخش ہے آپ کے علم میں اللہ مزید اضافہ فرمایۓ
    لیکن میرا سوال ہے کلر تو کلر ہے چاہے جو بھی ہو سب کلر میں کیمیکل ہے پھر کالےکی ممانعت کیو ں

    جواب دیںحذف کریں
  3. ابو داؤد کی حدیث کس درجے کی ہے وجاہت فرما ںنء
    مہربانی ہوگی

    جواب دیںحذف کریں