ہفتہ، 29 جون، 2019

حج بدل کرنے والا کون سا حج کرے؟

*حج بدل کرنے والا کون سا حج کرے؟*

سوال :

حج بدل کرنے والا شخص کون سا حج کرسکتا ہے؟ حجِ قران حجِ تمتع یا حج افراد؟
(المستفتی : محمد آفاق، مالیگاؤں)
----------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : حج بدل میں اصل حکم یہ ہے کہ حج بدل کرنے والے کا حج میقاتی ہو، یعنی وہ میقات سے حج کا احرام باندھے اور یہ بات حجِ افراد اور حجِ قران میں تو پائی جاتی ہے، لیکن حج تمتع میں نہیں پائی جاتی، اسی لئے بہت سی کتابوں میں یہی لکھا ہے کہ حج بدل میں افراد یا قران ہی ہونا چاہئے، حج تمتع سے حجِ بدل معتبر نہ ہوگا۔ زبدۃ المناسک از : حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ، غنیۃ الناسک، از : حضرت مولانا حسن شاہ مہاجر مکیؒ، اور معلم الحجاج، از: حضرت مولانا قاری سعید احمد صاحب اجراڑویؒ ،وغیرہ میں بھی یہی رائے اپنائی گئی ہے۔

قالوا: قید بالقران؛ لان في التمتع یصیر مخالفاً بالإجماع وإن نوی العمرۃ عن الآمر؛ لأنہ أمر بالإنفاق في سفر الحج، وقد اتفق في سفر العمرۃ؛ ولأنہ أمر بحجۃ میقاتیۃ وقد أتی بحجۃ مکیۃ۔ (البحر العمیق ۴؍۳۱۲۳، مناسک ملا علی القاري ۴۵۹)

لیکن موجودہ دور میں بالخصوص احرام میں طوالت اور جنایات احرام کے ارتکاب کے خطرہ کی وجہ سے محقق مفتیانِ کرام نے حج بدل کروانے والے کی اجازت سے حج بدل میں تمتع کو جائز لکھا ہے۔ چنانچہ لباب المناسک (للشیخ رحمت اللہ سندھی) اور ارشاد الساری حاشیۃ مناسک ملا علی قاری (از: علامہ محمد سعید عبدالغنی مکی) اور زبدۃ المناسک مع عمدۃ المناسک (مؤلفہ حضرت مولانا شیر محمد سندھیؒ مہاجر مدنی) ۴۵۶، جواہر الفقہ (مؤلفہ: حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحبؒ) ۵۰۸-۵۱۶، احسن الفتاویٰ (مؤلفہ: مفتی رشید احمد لدھیانویؒ) ۴؍۵۲۳ اورانوار مناسک (مؤلفہ: مفتی شبیر احمد صاحب قاسمی) ۵۵۰-۵۵۱ میں بھی دلائل کے ساتھ یہی رائے مذکور ہے۔

نیز ادارۃ المباحث الفقہیۃ جمعیۃ علماء ہند کے چھٹے فقہی اجتماع منعقدہ ۱۴۱۷ھ میں منظور کردہ تجویز کے الفاظ حسب ذیل ہیں: ’’حج بدل کا اصل حکم تو یہی ہے کہ مامور حج افراد کرے، لیکن اگر آمر یا وصی تمتع کی اجازت دے تو تمتع بھی درست ہے۔ البتہ دم تمتع مامور اپنے مال سے ادا کرے الا یہ کہ آمر دم تمتع ادا کرنے کی بھی اجازت دے دے، خواہ یہ اجازت صراحۃً ہو یا دلالۃً‘‘۔ تاہم بہتر یہی ہے کہ حج بدل میں حج افراد کیا جائے، تاکہ کوئی خلجان نہ رہے، اور اس کی آسان شکل یہ ہوسکتی ہے کہ حج کے قریبی وقت میں سفر کیا جائے (اور آج کل پرائیویٹ ٹور سے جانے میں اس میں زیادہ دشواری نہیں ہے؛ کیونکہ بہت سے ٹور والے بالکل آخری دنوں میں سفر پر لے جاتے ہیں) یا اولاً مدینہ منورہ جائیں اور وہاں سے ذی الحجہ کے شروع میں حج کا احرام باندھ کر مکہ معظمہ چلے جائیں۔

قال الشیخ أبو بکر محمد بن الفضل رحمہ اللّٰہ تعالیٰ: إذ أمر غیرہ بأن یحج عنہ ینبغي أن یفوض الأمر إلی المامور، فیقول: حج عني بہٰذا کیف شئت إن شئت حجۃ؟ وإن شئت حجۃ وعمرۃ، وإن شئت قرانا، والباقي من المال مني لک وصیۃ کیلا یضیق الأمر علی الحاج ولا یجب علیہ رد ما فضل إلی الورثۃ۔ (فتاویٰ قاضي خان ۱؍۳۰۷)

ودم القران والتمتع والجنایۃ علی الحاج إن اذن لہ الآمربالقران والتمتع۔ (در مختار ۲؍۶۱۱ کراچي، ۴؍۳۲ زکریا)

لأن المیت لو أمرہ بالتمتع فتمتع المامور صح ولا یکون مخالفا بلا خلاف بین الأمۃ الأسلاف۔ (إرشاد الساري لملا علی القاري ۳۰۴ بحوالہ جواہر الفقہ ۱؍۵۱۲ انوار مناسک ۵۵۲)
مستفاد : کتاب النوازل)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
25 شوال المکرم 1440

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں