اتوار، 30 جون، 2019

راستوں کی کیچڑ اور پانی کے چھینٹوں کا حکم

*راستوں کی کیچڑ اور پانی کے چھینٹوں کا حکم*

سوال :

اگر کپڑے پر سڑکوں پر موجود بارش وغیرہ کی وجہ سے ہونے والے کیچڑ  پانی لگ جائے تو اس کا کیا حکم ہے؟ کپڑا دھوئے بغیر نماز پڑھ سکتے ہیں؟ پانی سے دھوکر کیچڑ صاف کرنے کے بعد کپڑے پر جو اس کا ڈاغ دھبہ باقی رہ جاتا ہے جس کو صابن کے بغیر صاف کرنا مشکل ہوتا ہے اس کا کیا حکم ہے؟
(المستفتی : شجاع الدین، مالیگاؤں)
---------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : بارش کے موسم میں راستوں پر موجود کیچڑ اور پانی کے چھینٹے کپڑوں یا بدن پر لگ جائیں تو کپڑوں اور بدن کو ناپاک نہیں کہا جائے گا۔ اس لیے کہ اس میں عمومِ بلوی اور دفع حرج کی وجہ سے فقہاء کرام نے گنجائش لکھی ہے۔ البتہ اگر اس کیچڑ میں نجاست صاف نظر آرہی ہو یا ظنِ غالب ہو، یا پھر پانی کا رنگ اور بُو نجاست کے ملنے کی وجہ سے تبدیل ہوگیا ہو تو ایسی صورت میں کپڑوں اور بدن کا دھونا ضروری ہوگا۔

ناپاک کیچڑ اور پانی جو کپڑے پر لگ گیا ہوتو کپڑے پر پانی ڈال کر اس کا نچوڑ دینا کافی ہے، اگرچہ داغ دھبہ باقی رہے، کپڑا پاک ہی شمار کیا جائے گا۔

وطین الشوارع عفو وإن ملأ الثوب للضرورۃ، ولو مختلطاً بالعذرات وتجوز الصلوٰۃ معہ الخ۔ بل الأشبہ المنع بالقدر الفاحش منہ إلا لمن ابتلي بہ بحیث یجيء ویذہب في أیام الأوحال في بلادنا الشامیۃ؛ لعدم انفکاک طرقہا من النجاسۃ غالباً مع عسر الاحتراز بخلاف من لا یمر بہا أصلاً في ہٰذہ الحالۃ فلا یعفی في حقہ، حتی أن ہٰذا لا یصلي في ثوب ذاک۔ (شامی، ۱/۵۳۱)

سئل أبو نصر عن ماء الثلج الذي یجري علی الطریق، وفي الطریق سرقین ونجاسات یتبین فیہ أیتوضأ بہ؟ قال: متی ذہب أثر النجاسۃ ولونہا جاز، وفي الحجۃ: ماء الثلج والمطر یجري في الطریق إذا کان بعیداً من الأرواث یجوز التوضي بہ بلاکراہۃ۔ (فتاویٰ تاتارخانیۃ ۱؍۲۹۸ رقم: ۴۸۱/بحوالہ کتاب النوازل)

وبتغیر أحد أوصافہ من لون أو طعم أو ریح ینجس الکثیر ولو جاریاً إجماعاً۔ أما القلیل فینجس وإن لم یتغیر۔ (درمختار مع الشامي : ۱/۳۳۲)

ولا یضر بقاء أثر کلون وریح فلا یکلف في إزالتہ إلی ماء حارٍ أو صابون ونحوہ۔ (شامي : ۱/۵۳۷)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
26 شوال المکرم 1440

5 تبصرے: