ہفتہ، 1 جون، 2019

مبارکبادی کے تصویری بینر لگانے کا شرعی حکم

*مبارکبادی کے تصویری بینر لگانے کا شرعی حکم*

سوال :

مفتی صاحب ایک مسئلہ یہ دریافت کرنا تھا کہ شہروں میں آجکل عید کے ایّام شروع ہونے سے کُچھ دن پہلے ہی چوک چوراہوں پر بڑے شوق سے عید مبارک کے بڑے بڑے بینر لگائے جاتے ہیں جِن پر کُچھ احباب کی مختلف قسم کی تصاویر چسپاں ہوتی ہیں، کیا ایسا کرنا کارِ خیر ہے یا کارِ شر؟ کیا یہ فضول خرچی نہیں ہے؟ حدیث پاک میں تو آیا ہے کہ تصاویر والی جگہوں پر فرشتے بالکل نہیں آتے؟ تو کیا ایسی جگہوں پر رحمتِ خُدا نازل ہوگی؟ رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : انصاری عبیدالرحمن، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : متعدد احادیث میں تصویر کشی کرنے والوں سے متعلق انتہائی سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں، جن میں سے چند احادیث درج  ذیل ہیں۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
اللہ تعالی فرماتا ہے : اس سے بڑا ظالم کون ہوگا جو میری تخلیق جیسی تخلیق کرنے کی کوشش کرتا ہے، ایسے لوگ ایک ذرہ، ایک دانہ یا ایک جَو ہی بناکر دکھلائیں۔ (صحیح بخاری، حدیث : 5953، 7559)

حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :
قیامت کے دن سب سے سخت ترین عذاب تصویریں بنانے والے لوگوں کو ہوگا۔ (صحیح مسلم، حدیث : 2109)

حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہا کہتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : ہر مصور جہنم میں جائے گا۔ اس کی بنائی ہوئی ہر تصویر کے بدلے میں ایک جان بنائی جائے گی جس کے ذریعہ سے اس (مصور) کو جہنم میں عذاب دیا جائےگا۔ (صحیح بخاری، حدیث : 2225، 5963)

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہا سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
جس نے دنیا میں کوئی تصویر بنائی، اسے قیامت کے دن اس تصویر میں روح پھونکنے کا حکم دیا جائے گا مگر وہ اس میں روح ہر گز نہ پھونک سکے گا۔ (صحیح بخاری، حدیث : 5963)

درج بالا احادیثِ مبارکہ میں بیان کی گئی تصویر سے مراد جانداروں کے پُتلے اور مجسمے، ہاتھ سے کسی کاغذ وغیرہ پر بنائی گئی اور کیمرہ سے شوٹ کرکے اس کی پرنٹ نکال لی گئی تصویریں ہیں، ایسی تصویروں کے متعلق برصغیر کے علماء کرام کا اتفاق ہے کہ یہ تصویر جائز نہیں ہے، اور مذکورہ احادیث میں بیان کی گئی وعید کا مصداق ہے۔

لہٰذا بلا ضرورتِ شدیدہ کیمرے سے تصویر لے کر اس کا پرنٹ نکال لینا جائز نہیں ہے، البتہ ضرورت کی وجہ سے یہ تصویر کھنچوانے کی گنجائش ہے، مثلاً پاسپورٹ، ایڈنٹی کارڈ، اسکولوں اور مدارس کے داخلہ فارم میں یا سرکاری کام کے فارم کے لئے تصویر کھنچوانے کی گنجائش ہے۔
الضرورات تبیح المحظورات۔ (الأشباہ والنظائر قدیم۱۴۰)

مندرجہ بالا تفصیلات سے واضح ہوگیا کہ عید کی مبارکبادی کے تصویری بینر لگانا یا لگوانا بلاشبہ ناجائز اور گناہ کا کام ہے۔ اس لئے کہ یہ کوئی شرعی ضرورت نہیں ہے، جس کے لیے تصویر کشی کی اجازت ہو۔ اس میں قطعاً کوئی خیر نہیں ہے۔ نیز یہ عمل سراسر فضول خرچی پر مبنی ہے، اور قرآنِ کریم میں فضول خرچی کرنے والوں کو شیطان کا بھائی کہا گیا ہے۔ لہٰذا ہر مسلمان پر ضروری ہے کہ ایسے عمل سے خود بھی بچے اور بقدر استطاعت دوسروں کو بھی اس گناہ سے بچانے کی کوشش کرے۔

بلاشبہ حدیث شریف میں آیا ہے کہ جس گھر میں تصویر یا کتا ہو اس میں رحمت کے فرشتے داخل نہیں ہوتے۔ لیکن حدیث شریف کے الفاظ پر غور فرمائیں کہ اس میں مکان کا ذکر ہے، مکان کے باہر کا ذکر نہیں ہے، اگر مکان کے باہر بھی مراد لیا جائے تو پھر کتوں کو کہاں رکھا جائے گا؟ ظاہر ہے کتے گھر میں نہیں رہیں گے تو باہر ہی رہیں گے نا؟ ورنہ ان کے لیے کوئی الگ دنیا بسانی پڑے گی۔ پھر تصاویر تو آج پوری دنیا میں جگہ جگہ لگی ہوئی ملیں گی، تو کیا اس کی وجہ سے یہ کہہ دیا جائے کہ پوری دنیا رحمت کے فرشتوں سے خالی ہے؟ بالکل نہیں۔ بلکہ حدیث شریف میں جو مکان کی قید لگی ہوئی ہے اسے اسی حد تک رکھا جائے۔ تصویری بینر کا لگانا اور لگوانا بلا شبہ سخت گناہ اور معصیت ہے، جس سے بچنا بہرحال ضروری ہے۔ لیکن اپنی طرف سے اس کی قباحت کو بیان کرنے میں مبالغہ کرنا اور لوگوں کو تشویش میں مبتلا کرنا بھی شرعاً درست نہیں ہے۔

قال النووي : قال أصحابنا وغیرہم من العلماء: تصویر صورۃ الحیوان حرامٌ شدید التحریم، وہو من الکبائر … فصنعتہ حرام بکل حال۔ (شرح النووي علی صحیح مسلم ۲؍۱۹۹، ونحو ذٰلک في الفتاویٰ الہندیۃ ۵؍۳۵۹)

ظاہر کلام النووي في شرح مسلم: الإجماع علی تحریم تصویر الحیوان۔ (شامي، کتاب الصلاۃ / باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا، مطلب إذا تردد الحکم بین سنۃ وبدعۃ ۲؍۴۱۶ زکریا، وکذا في فتح الباري ۱۰؍۳۸۴)

قال اللہ تعالیٰ : اِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ کَانُوْا اِخْوَانَ الشَّیٰطِیْنِ۔ (سورۂ بنی اسرائیل: ۲۷)

وقال القرطبي : من أنفق مالہ في الشہوات زائداً علی قدر الحاجات وعرّضہ بذٰلک للنفاد فہو مبذر۔ (تفسیر القرطبي ۵؍۲۲۴ بیروت)

عن أبي طلحۃ رضي اللّٰہ عنہ قال: قال النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: لا تدخل الملائکۃ بیتًا فیہ کلب ولا تصاویر۔ (صحیح البخاري، کتاب اللباس / باب التصاویر ۲؍۸۸۰ رقم : ۵۹۴۹)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
26 رمضان المبارک 1440

5 تبصرے: