پیر، 3 جون، 2019

مسجد یا مدرسہ کا پیسہ کسی کو قرض دینا

*مسجد یا مدرسہ کا پیسہ کسی کو قرض دینا*

سوال :

چند لوگوں کے زیرِ نگرانی ایک مکتب چل رہا ہےمعلمین کی تنخواہ کے لئے محلہ میں چندہ کیا جاتا ہے، تنخواہ دینے کے بعد جو رقم بچ جاتی وہ ذمہ داروں کے پاس محفوظ رہتی ہے، مذکورہ بچی ہوئی رقم سے کسی کو قرض دینا کیسا ہےکیا شرعاً جائز ہے؟
(المستفتی : سراج احمد، مالیگاؤں)
----------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : مسجد یا مدرسہ کا پیسہ دوسروں کو بطور قرض دینا جائز نہیں ہے۔ البتہ امام، مؤذن، معلمین وملازمین کو حسبِ ضابطہ قرض دینے کی گنجائش ہے۔ اِس لئے کہ دوسروں کو قرض دینے سے اس مال کے ضائع ہونے کا قوی اندیشہ ہے، جب کہ ملازمین کو دینے سے ایسا اندیشہ نہیں ہے، بلکہ اس قرض کی واپسی کی اُمید زیادہ ہے۔ دوسرے یہ کہ غیر متعلق لوگوں کو قرض دینا مسجد ومدرسہ کے مصارف میں شامل نہیں۔ جب کہ ملازمین کو ضابطہ کے مطابق قرض دینا اُن کے مصرف میں شامل ہے۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں مکتب کے اخراجات سے بچی ہوئی رقم معلمین کے علاوہ کسی اور کو بطور قرض دینا جائز نہیں ہے۔

مع أن القیم لیس لہ إقراض مال المسجد، قال في جامع الفصولین: لیس للمتولي إیداع مال الوقف والمسجد إلا ممن في عیالہ ولا إقراضہ، فلو أقرضہ ضمن، وکذا المستقرض۔ (البحر الرائق / کتاب الوقف ۵؍۴۰۱ زکریا)
مستفاد : کتاب النوازل)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
28 رمضان المبارک 1440

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں