منگل، 11 جون، 2019

لمبی مدت کے بعد ماہواری آنے والی مطلقہ کی عدت

*لمبی مدت کے بعد ماہواری آنے والی مطلقہ کی عدت*

سوال :

جس خاتون کو ماہواری تین چار مہینے میں ایک مرتبہ آتی ہو وہ عدت طلاق کس طرح پوری کرے؟
(المستفتی : عبدالمتین، مالیگاؤں)
---------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : صورتِ مسئولہ میں جبکہ اس عورت کو تین چار مہینے میں ماہواری آجاتی ہے تو اس کے لیے حکم یہ ہے کہ طلاق کے بعد جب بھی یہ خاتون تیسری ماہواری سے پاک ہوگی، اس کی عدت مکمل ہوجائے گی۔

البتہ ایسی عورت جس کو لمبی مدت تک حیض نہیں آرہا ہے اس کی طلاق کی عدت کے بارے میں مالکی مسلک سے ایک مسئلہ لیا گیا ہے کہ طلاق کے بعد وہ نو مہینے تک انتظار کرتی رہے، اگر نو مہینے تک اس کو حیض نہ آئے تو اس کو آئسہ کے حکم میں قرار دے کر مہینوں کے ذریعہ سے اس کی عدت شمار کی جائے گی، لہٰذا نو مہینے کے بعد مزید تین مہینے عدت میں شمار کیے جائیں گے، اس کے بعد اس کی عدت مکمل شمار ہوگی، اور بعض فقہاء نے یہ بھی لکھا ہے کہ چھ مہینے انتظار کے بعد اس کو آئسہ کے درجہ میں قرار دیا جائے،اور مزید تین مہینہ عدت گذار کر کل نو مہینے کے بعد اس کو عدت سے فارغ شمار کیا جائے، لیکن نو مہینہ کے انتظار میں زیادہ احتیاط ہے۔

روی عن عمرؓ أنہ قال فی رجل طلق امرأتہ فحاضت حیضۃ أو حیضتین فارتفع حیضہا لا تدری ما رفعہ تجلس تسعۃ أشہر فإذا لم یستبن بہا الحمل تعتد بثلاثۃ أشہر فذٰلک سنۃ ولا نعرف لہا مخالفا، قال ابن المنذر قضی بہ عمرؓ بین المہاجرین والأنصار ولم ینکر منکر۔ (المغنی لابن قدامۃ، دار الفکر بیروت ۸/۹۰)

وإذا طلقت المرأۃ وہی من ذوات الأقراء ثم أنہا لم تر الحیض فی عادتہا ولم تدر ما سببہ فإنہا تعتد بسنۃ، تتربص مدۃ تسعۃ أشہر لتعلم براء ۃ رحمہا، لأن ہذہ المدۃ ہی غالب مدۃ الحمل، فإذا لم یبن الحمل فیہا، علم براء ۃ الرحم ظاہراً ثم تعتد بعد ذٰلک عدۃ الآیسات ثلاثۃ أشہر وہذا ما قضی بہ عمرؓ۔ (فقہ السنۃ، دار الکتب العلمیۃ بیروت۲/۲۹۴)

الشابۃ الممتدۃ بالطہر بأن حاضت ثم امتد طہرہا، فتعتد بالحیض الی أن تبلغ سن الإیاس، ومافی شرح الوہبانیۃ من انقضائہا بتسعۃ أشہر وتحتہ فی الشامیۃ: قال العلامۃ: والفتویٰ فی زمانا علی قول مالک و علی مافی جمیع الفصولین لوقضی قاض بانقضاء عدتہا بعد مضی تسعۃ أشہر نفذ -وقولہ- قال الزاہدی: وقد کان بعض أصحابنا یفتون بقول مالک فی ہذہ المسئلۃ للضرورۃ۔ (شامی، باب العدۃ کراچی ۳/۵۰۸-۵۰۹ زکریا ۵/۱۸۵، ۱۸۶)

ولو قضی قاض بانقضاء عدۃ الممتدۃ طہرہا بعد مضی تسعۃ أشہر نفذ کما فی جامع الفصولین ونقل فی المجمع أن مالکا یقول: إن عدتہا تنقضی بمضی حول، وفی شرح المنظومۃ: إن عدۃ الممتدۃ طہرہا یقول:أن عدتہا تنقضی بمضی حول، وفی شرح المنظومۃ: إن عدۃ الممتدۃ طہرہا تنقضی بتسعۃ أشہر کمافی الذخیرۃ معزیا إلی حیض منہاج الشریعۃ و نقل مثلہ، عن ابن عمر قال: وہذہ المسئلۃ یجب حفظہا، لأنہا کثیرۃ الوقوع و ذکر الزاہدی: وقد کان بعض أصحابنا یفتون بقول مالک فی ہذہ المسئلۃ للضرورۃ۔ (البحر الرائق، زکریا ۴/۲۲۰-۲۲۱، کوئٹہ ۴/۱۳۱)
مستفاد : فتاوی قاسمیہ)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
07 شوال المکرم 1440

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں