جمعہ، 21 جون، 2019

شوہر کا بیوی سے اس کی تنخواہ کا مطالبہ کرنا

*شوہر کا بیوی سے اس کی تنخواہ کا مطالبہ کرنا*

سوال :

کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے کہ زید ایک اسکول ٹیچر ہے، زید کی بیوی ہندہ بھی ٹیچر ہے۔ زید اپنی بیوی کو مختلف طریقوں سے پریشان کرتا رہتا ہے،  شادی کے بعد تقریباً 18 سال تک وہ ہندہ کی پوری تنخواہ لے لیا کرتا تھا۔ اور اس کی ضروریات کے بقدر بھی اسے پیسے نہیں دیتا تھا۔ جس سے تنگ آکر کچھ دن پہلے ہندہ نے اپنے شوہر کوتنخواہ دینا ہی بند کردیا۔ اس کے بعد سے گھر کے اخراجات میں دونوں برابر برابر رقم دیتے ہیں، لیکن اب زید کا پھر مسلسل اصرار ہے کہ ہندہ اسے پوری تنخواہ دے۔ ہندہ کے تنخواہ نہ دینے پر کہتا ہے کہ تو گھر سے نکل جا۔ میں نے تیری تنخواہ پانے کے لئے ہی تجھ سے نکاح کیا تھا۔ اور زید یہ بھی کہتا ہے کہ شرعاً اسے اس بات کا حق ہے کہ وہ بیوی کی تنخواہ لے لے۔ لہٰذا آنجناب سے درخواست ہے شریعت کی روشنی میں واضح فرمائیں کہ زید کا یہ عمل کیسا ہے؟ کیا ہندہ پر ضروری ہے کہ وہ اپنے شوہر کو اپنی پوری تنخواہ دے دے؟
(المستفتی : محمد زید، مالیگاؤں)
----------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : مسئولہ صورت کا جواب لکھنے سے پہلے کچھ ترغیبی باتیں بطور نصیحت عرض کردینا مناسب سمجھتا ہوں تاکہ مبتلا بہ حضرات کی ذہن سازی ہوجائے اور حکم جاننے کے بعد اس پر عمل کرنا ان کے لیے آسان ہو۔

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے : الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ۔ مرد عورتوں پر نگران اور ان کے محافظ ہیں ان سے برتر ہیں، اور یہ ایک قدرتی امر ہے جس سے انکار ممکن نہیں۔ اور پھر مردوں کی برتری کی دلیل بھی قرآن میں بیان فرمادی۔ ” وَبِمَا أَنْفَقُوا مِنْ أَمْوَالِهِمْ “ کہ مرد اپنی کمائی عورتوں پر خرچ کرتے ہیں۔ ان کے کفیل ہیں اور مشقت کے کام مرد کے سپرد کئے ہیں، کمانا اس کے ذمہ ہے۔ عورت کا کام گھر کی ذمہ داریاں پوری کرنا ہے۔

درج بالا آیتِ مبارکہ اور اس کی تشریح سے معلوم ہوا کہ شوہر کے بیوی پر کچھ حقوق ہیں جن کا ادا کرنا اور پورا کرنا شریعت مطہرہ کی رو سے اس پر واجب ہے، بیوی کے حقوق شوہر پر مہر، نان و نفقہ، لباس، مکان، اعفاف الزوجہ، عدل وانصاف وغیرہ ہیں۔

نیز دیگر آیت قرآنیہ اور متعدد احادیث مبارکہ میں شوہروں کو اپنی بیویوں کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید کی گئی ہے۔

قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ  اور گذران کرو خوبی کے ساتھ۔ یعنی حسن معاملہ، ادائے حقوق اور اچھے کلام کے ساتھ۔
فَإِنْ كَرِهْتُمُوهُنَّ۔ اور اگر تم ان کو ناپسند کرتے ہو یعنی بد صورتی یا بد اخلاقی کی وجہ سے تو پھر بھی صبر کرو نہ ان کو دکھ دو نہ ترک تعلق کرو۔

ذیل میں اسی عنوان کی چند احادیث ذکر کی جاتی ہیں ۔

حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ رسالت مآب ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ عورتوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو کیونکہ عورت پسلی سے پیدا ہوئی ہے اور پسلی میں سب سے زیادہ کجی اس کے اوپر والے حصہ میں ہوتی ہے اگر تم اسے سیدھا کرنا چاہو گے تو وہ ٹوٹ جائے گی اور اگر چھوڑ دو گے تو ٹیڑھی رہے گی لہذا تم عورتوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو۔(بخاری)

حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا تم میں سے بہترین لوگ وہ ہیں جو اپنے گھر والوں کے لئے بہترین ہیں اور میں تم میں سب سے زیادہ اپنے گھر والوں سے اچھا برتاؤ کرنے والا ہوں۔(ابن ماجہ)

حدیث شریف کا مطلب یہ ہے کہ اللہ اور اللہ کی مخلوق کے نزدیک تم میں بہترین شخص وہ ہے جو اپنی بیوی اپنے بچوں اپنے عزیزوں واقارب اور اپنے خدمت گاروں و ماتحتوں کے ساتھ بھلائی اور اچھا سلوک کرتا ہے کیونکہ اس کا بھلائی اور اچھا سلوک کرنا اس کی خوش اخلاقی وخوش مزاجی پر دلالت کرتا ہے۔

اسی طرح شریعت مطہرہ نے بیوی پر سب زیادہ حقوق اس کے شوہر کےمتعین فرمائے ہیں، اور متعدد احادیث میں بیوی کو حکم دیا گیا ہے کہ اس کے مقام و مرتبہ کا خیال رکھتے ہوئے اس کے ساتھ سلوک کرے۔ اس پر احادیث ملاحظہ فرمائیں۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اگر میں کسی کو یہ حکم کر سکتا کہ وہ کسی غیر اللہ کو سجدہ کرے تو میں یقیناً عورت کو حکم کرتا کہ وہ اپنے خاوند کو سجدہ کرے۔ (ترمذی)

حضرت جابر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم عورتوں کے بارہ میں اللہ تعالی سے ڈرو، بلاشبہ تم نے انہيں اللہ تعالی کی امان سے حاصل کیا ہے، اوران کی شرمگاہوں کواللہ تعالی کے کلمہ سے حلال کیا ہے، ان پر تمہارا حق یہ ہے کہ جسے تم ناپسند کرتے ہو وہ تمہارے گھر میں داخل نہ ہو، اگر وہ ایسا کریں تو تم انہيں مار کی سزا دو جو زخمی نہ کرے اورشدید تکلیف دہ نہ ہو، اور ان کا تم پر یہ حق ہے کہ تم انہيں اچھے اور احسن انداز سے نان و نفقہ اور رہائش دو۔ (مسلم)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جب مرد اپنی بیوی کواپنے بستر پر بلائے اوربیوی انکار کردے تو خاوند اس پر رات ناراضگی کی حالت میں بسر کرے تو صبح ہونے تک فرشتے اس پر لعنت کرتے رہتے ہیں۔ (بخاری و مسلم)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ( کسی بھی عورت کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ خاوند کی موجودگی میں (نفلی) روزہ رکھے لیکن اس کی اجازت سے رکھ سکتی ہے، اورکسی کوبھی اس کے گھرمیں داخل ہونے کی اجازت نہ لیکن اس کی اجازت ہو تو پھر داخل کرے۔ (بخاری)

صورتِ مسئولہ میں زید کا عمل انتہائی افسوس ناک اور شرعی احکامات کے صریح خلاف ہے۔ ہندہ کی ملازمت پر ملنے والی تنخواہ کی وہ تنہا مالک ہے اور اسے اس بات کا شرعاً اختیار ہے کہ وہ اس پیسے کو جائز کاموں میں جہاں چاہے خرچ کرے۔ شوہر کو دینا ضروری نہیں۔ پھر زید کا یہ تک کہہ دینا کہ میں نے تجھ سے نکاح ہی تیری تنخواہ پانے کے لئے کیا تھا۔ اس کی مردانہ شان کے منافی ہے، اور اس حدیث شریف کے بھی خلاف ہے جس کا مفہوم  ہے عورتوں سے نکاح ان کے مال کی وجہ سے نہ کیا جائے بلکہ دینداری کو ترجیح دی جائے۔ لہٰذا زید کو چاہیے کہ اپنی قوّامیت  کا رعب باقی رکھے اور ہندہ سے اس کی تنخواہ کا مطالبہ نہ کرے۔ نیز محبت و مودت اور حسنِ سلوک سے اپنے تعلقات مضبوط بنائے۔ امید ہے کہ بغیر مانگے وہ اپنی تنخواہ دے دے، کیونکہ جب ١۸ سال تک وہ اپنی تنخواہ دیتی رہی ہے تو ظاہر ہے زید کی طرف سے واقعتاً ایسی کوئی زیادتی ہوئی ہوگی جس سے دلبرداشتہ ہوکر اس نے یہ سلسلہ منقطع کردیا۔ نیز زید کو یہ بات بھی پیش نظر رکھنی چاہیے کہ یہ پیسے بھی اسی کی اولاد کے لیے کام میں آنے والے ہیں۔ لہٰذا صرف تنخواہ کی وجہ سے میاں بیوی کے خوشگوار تعلقات کو خراب نہ کرے، اللہ تعالیٰ کا بنایا ہوا یہ بڑا خوبصورت رشتہ ہے، اس سے لطف اندوز ہوں۔ اور شرعی احکامات کے مطابق زندگی گذارے ان شاءاللہ تمام مسائل عافیت کے ساتھ حل ہوجائیں گے ۔

نوٹ : ہندہ اگر پردے کی رعایت کرتے ہوئے ملازمت کررہی ہو تب تو کوئی حرج نہیں، پردہ کی عدم رعایت کی صورت میں وہ گناہگار ہوگی، تاہم ہر دو صورت میں اس کی تنخواہ حلال ہے۔

وکون الرجال قوامین علی النساء متکفلین معاشہن وکونہن خادمات حاضنات مطیعات سنۃ لازمۃ وأمراً مسلمًا عند الکافۃ، وفطرۃ فطر اللّٰہ الناس علیہا لا یختلف في ذٰلک عربہم ولا عجمہم۔ (حجۃ اللّٰہ البالغۃ : ۱/۱۳۳)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
17 شوال المکرم 1440

1 تبصرہ: