جمعہ، 14 جون، 2019

والدین کا بچے کو داڑھی رکھنے سے منع کرنا

*والدین کا بچے کو داڑھی رکھنے سے منع کرنا*

سوال :

زید 18 سال کا لڑکا ہے، ممبئی میں رہتا ہے۔ اسے داڑھی کی سُنّت، فضیلت اور اہمیت کا احساس ہوا تو اس نے داڑھی رکھنے کا فیصلہ کیا۔ ابھی ماشاءاللہ اس کو جمالی داڑھی آچکی ہے۔ مگر اب اس کے والدین داڑھی کی پرزور مخالفت کر رہے ہیں اور بول رہے ہیں اتنی کم عمر میں داڑھی رکھنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے اور داڑھی کٹوانے کے لیے مسلسل زور ڈال رہے ہیں۔ ایسی حالت میں زید کو کیا کرنا چاہئے؟ شریعت میں کیا حکم ہے؟ براہ مہربانی رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : محمد ذیشان، مالیگاؤں)
---------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : داڑھی رکھنا تمام انبیاء کرام علیہم السلام کی سنت رہی ہے، اور متعدد احادیث میں داڑھی بڑھانے کا حکم وارد ہوا ہے۔ بخاری شریف کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ اپنی مونچھیں کترواؤ اور داڑھیاں بڑھاؤ۔ ایک روایت میں ہے کہ داڑھیاں بڑھاکر مشرکین کی مخالفت کرو۔ اس لئے ائمہ اربعہ امام ابوحنیفہ امام مالک، امام شافعی، امام احمد رحمہم اﷲ کے نزدیک ایک مشت داڑھی رکھنا واجب ہے، اور اس سے پہلے کٹانا ناجائز اور سخت معصیت و گناہ کی بات ہے۔ البتہ ایک مشت سے زائد ہونے پر کاٹنے کی گنجائش ہے۔

قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم انہکوا الشوارب واعفوا اللحیٰ۔ (صحیح البخاری، رقم : ۵۶۶۴)

قال رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم : خالِفوا المشرکین ووفِّروا اللحیٰ۔ (صحیح البخاري، رقم : ۵۸۹۲)

واما قطع مادون ذلک فحرام اجماعاً بین الائمۃ رحمھم اﷲ۔ (فیض الباری، باب اعفآء اللحی، ۴/۳۸۰ )

وأما الأخذ منہا وہي دون القبضۃ کما یفعلہ بعض المغاربۃ ومخنثۃ الرجال فلم یبحہ أحد وأخذ کلہا فعل الیہود ومجوس الأعاجم۔ (الدر المختار مع الشامي، ۳/۳۹۸، زکریا)

أو تطویل اللحیۃ إذا کانت بقدر المسنون وہو القبضۃ۔ (الدر المختار، ۲/۴۱۷، کراچی)

صورتِ مسئولہ میں زید نے داڑھی رکھ کر شریعتِ مطہرہ کے ایک اہم حکم پر عمل کیا ہے، جو شرعاً واجب کا درجہ رکھتا ہے، لہٰذا والدین کے کہنے اور زور ڈالنے پر داڑھی کٹا لینا اس کے لیے قطعاً جائز نہیں ہے۔ بلاشبہ والدین کے حقوق اولاد پر سب سے زیادہ ہیں، اور جائز امور میں ان کی فرمانبرداری ضروری ہے، لیکن اس کے باوجود گناہ کے کاموں میں ان کی اطاعت جائز نہیں ہے، ذخیرہ احادیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا بالکل واضح ارشاد موجود ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں کسی بھی انسان کی اطاعت جائز نہیں ہے۔ زید کے والدین کو تو اس بات پر خوش ہونا چاہیے کہ ان کا فرزند شریعتِ مطہرہ کے احکام پر عمل پیرا ہے، جس کا فائدہ انہیں خود بھی آخرت میں معلوم ہوگا، کیونکہ اولاد کی نیکی والدین کے لیے بھی خیر کا باعث ہے۔ لہٰذا انہیں چاہیے کہ وہ زید کی حوصلہ افزائی کریں، اور نیکی کے کام میں معاون بن کر عنداللہ اجر عظیم کے مستحق بنیں، نا کہ زید کو داڑھی رکھنے سے روک کر اپنی آخرت کی بربادی کا سامان کریں۔

عن علي رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: لا طاعۃ لمخلوق في معصیۃ، إنما الطاعۃ في المعروف۔ (صحیح البخاري، رقم : ۲/۱۰۷۸)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
10 شوال المکرم 1440

3 تبصرے: