اتوار، 1 اگست، 2021

نومولود کے کان میں عورت یا موبائل کے ذریعہ اذان

سوال :

اگر زید کے یہاں بچے کی پیدائش کے وقت کوئی مرد وہاں موجود نہیں ہے۔ یا وہاں نہیں پہنچ سکتا تو اذان کے لیے کیا حکم ہے؟ کیا عورت یا موبائل فون کے ذریعہ اذان دے سکتے ہیں؟ رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : اجمل مرزا، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : نومولود کے کان میں اذان دینے کے متعلق شریعت کا حکم یہ ہے کہ مرد کا اذان دینا افضل اور بہتر ہے، لیکن اگر مرد کی غیرموجودگی میں عورت اذان دے دے تو اذان  درست ہو جائے گی، اعادہ کی ضرورت نہیں ہوگی۔ اس لیے کہ نماز  کے لیے  اذان  دینے کی کراہت کی جو علت اور سبب ہے یعنی اس کی آواز کا بلند ہونا یا فتنہ، وہ یہاں نہیں پائی جارہی ہے۔

نومولود کے کان میں اذان دینے کا سنت طریقہ یہی ہے کہ کوئی مرد براہ راست اس کے کان میں اذان دے اور یہ طریقہ شروع سے تا حال اسی طرح چلا آرہا ہے، لہٰذا احتیاط کا تقاضہ یہ ہے کہ حتی الامکان اس کی اصل شکل کو باقی رکھا جائے، کیونکہ جو برکات اور اثرات براہِ راست بچے کے کان میں اذان دینے میں ہے وہ موبائل فون کال کے ذریعہ اذان دینے سے حاصل نہیں ہوسکتے۔

دارالعلوم دیوبند کا فتوی ہے :
اگر کوئی اذان پڑھنے والا شخص نوزائیدہ بچہ کے پاس ایسا نہ ہو کہ جو بغیر موبائل فون کے براہ راست اذان معہود طریقہ پر پڑھ دے تو مجبوری میں موبائل فون سے اس کے کان میں اذان واقامت پڑھ دی تو گنجائش ہے، اذان واقامت ہوجائے گی۔ (رقم الفتوی : 59226)

صورتِ مسئولہ میں اگر کوئی مرد اذان دینے والا نہ ہوتو اذان دینے میں عجلت نہ کی جائے بلکہ کسی مرد کے پہنچنے کا انتظار کیا جائے، لیکن اگر واقعتاً ایسی کوئی صورت پیش آجائے کہ مرد کے انتظار میں گھنٹوں گزر جانے کا اندیشہ ہوتو بجائے موبائل کے ذریعہ اذان دلوانے کے کوئی عورت اذان دے دے۔ اور اگر کوئی عورت بھی اذان دینے والی نہ ہو تب مجبوراً فون کال کے ذریعے براہ راست کسی مرد سے اذان دلوائی جاسکتی ہے۔

وأذان المرأۃ، لأنہا إن خفضت صوتہا أخلت بالأعلام وإن رفعتہ ارتکبت معصیۃ لأنہ عورۃ تحتہ فی حاشیۃ الطحطای ’’أنہ عورۃ‘‘ ضعیف والمعتمد أنہ فتنۃ۔ (حاشیۃ الطحطاوی علی المراقی : ۱۹۹) فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
21 ذی الحجہ 1442

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں