جمعرات، 5 اگست، 2021

نقلی پلکیں اور نقلی ناخن لگانے کا شرعی حکم

سوال :

محترم مفتی صاحب! آج کل خواتین میں نقلی پلکیں اور نقلی ناخن لگانے کا رواج بڑھ رہا ہے، براہ کرم اس کی شرعی حیثیت بیان فرما دیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے۔
(المستفتی : محمد زاہد، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : حدیث شریف میں آیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے اس عورت پر لعنت فرمائی ہے جو اپنے بالوں میں کسی دوسرے کے بالوں کا جوڑ لگائے اور اس عورت پر جو کسی دوسری عورت کے بالوں میں اپنے بالوں کا جوڑ لگائے۔

معلوم ہونا چاہیے کہ فقہاء کرام نے یہاں بالوں سے مراد انسانی بال لیے ہیں، لہٰذا کسی بھی عورت کا اپنے سر کے بالوں یا پلکوں کے ساتھ کسی انسان کے بالوں کا جوڑنا حدیث شریف کے بیان کے مطابق اللہ اور اس کے رسول کی لعنت کا سبب ہے، اسی طرح انسانی ناخنوں کا لگانا بھی جائز نہیں ہے۔ البتہ اگر یہ بال یا ناخن مصنوعی ہوں یا خنزير کے علاوہ کسی اور جانور کے ہوں تو پھر شادی شدہ خواتین کا اپنے شوہر کی خوشنودی کے لیے ان کا لگانا جائز ہے۔ غیر شادی شدہ بچیوں کو اس سے بچنا چاہیے کیونکہ ان کا مقصد عموماً فیشن پرستی اور دوسروں کے سامنے فخر کرنا اور اِترانا ہوتا ہے۔

البتہ وضو اور غسل کے وقت ان نقلی پلکوں اور ناخنوں کا نکال لینا ضروری ہوگا تاکہ یہ چیزیں ان جگہوں پر پانی پہنچنے میں رکاوٹ نہ بنیں۔ ورنہ وضو اور غسل نہیں ہوگا۔

عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " لَعَنَ اللَّهُ الْوَاصِلَةَ وَالْمُسْتَوْصِلَةَ، وَالْوَاشِمَةَ وَالْمُسْتَوْشِمَةَ۔ (صحیح البخاری، رقم : 5937)

وَوَصْلُ الشَّعْرِ بِشَعْرِ الْآدَمِيِّ حَرَامٌ سَوَاءٌ كَانَ شَعْرَهَا أَوْ شَعْرَ غَيْرِهَا لِقَوْلِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «لَعَنَ اللَّهُ الْوَاصِلَةَ وَالْمُسْتَوْصِلَةَ وَالْوَاشِمَةَ وَالْمُسْتَوْشِمَةَ وَالْوَاشِرَةَ وَالْمُسْتَوْشِرَةَ وَالنَّامِصَةَ وَالْمُتَنَمِّصَةَ» النَّامِصَةُ الَّتِي تَنْتِفُ الشَّعْرَ مِنْ الْوَجْهِ وَالْمُتَنَمِّصَةُ الَّتِي يُفْعَلُ بِهَا ذَلِكَ،
(قَوْلُهُ سَوَاءٌ كَانَ شَعْرَهَا أَوْ شَعْرَ غَيْرِهَا) لِمَا فِيهِ مِنْ التَّزْوِيرِ كَمَا يَظْهَرُ مِمَّا يَأْتِي وَفِي شَعْرِ غَيْرِهَا انْتِفَاعٌ بِجُزْءِ الْآدَمِيِّ أَيْضًا: لَكِنْ فِي التَّتَارْخَانِيَّة، وَإِذَا وَصَلَّتْ الْمَرْأَةُ شَعْرَ غَيْرِهَا بِشَعْرِهَا فَهُوَ مَكْرُوهٌ، وَإِنَّمَا الرُّخْصَةُ فِي غَيْرِ شَعْرِ بَنِي آدَمَ تَتَّخِذُهُ الْمَرْأَةُ لِتَزِيدَ فِي قُرُونِهَا، وَهُوَ مَرْوِيٌّ عَنْ أَبِي يُوسُفَ، وَفِي الْخَانِيَّةِ وَلَا بَأْسَ لِلْمَرْأَةِ أَنْ تَجْعَلَ فِي قُرُونِهَا وَذَوَائِبهَا شَيْئًا مِنْ الْوَبَرِ (قَوْلُهُ «لَعَنَ اللَّهُ الْوَاصِلَةَ» إلَخْ) الْوَاصِلَةُ: الَّتِي تَصِلُ الشَّعْرَ بِشَعْرِ الْغَيْرِ وَاَلَّتِي يُوصَلُ شَعْرُهَا بِشَعْرٍ آخَرَ زُورًا۔ (شامی : ٦/٣٧٢)

أَنَّ اسْتِعْمَالَ جُزْءٍ مُنْفَصِلٍ عَنْ غَيْرِهِ مِنْ بَنِي آدَمَ إهَانَةٌ بِذَلِكَ الْغَيْرِ وَالْآدَمِيُّ بِجَمِيعِ أَجْزَائِهِ مُكَرَّمٌ وَلَا إهَانَةَ فِي اسْتِعْمَالِ جُزْءِ نَفْسِهِ فِي الْإِعَادَةِ إلَى مَكَانِهِ۔ (بدائع الصنائع : ٥/١٣٣)

وَلَا بَأْسَ بِذَلِكَ مِنْ شَعْرِ الْبَهِيمَةِ وَصُوفِهَا لِأَنَّهُ انْتِفَاعٌ بِطَرِيقِ التَّزَيُّنِ بِمَا يَحْتَمِلُ ذَلِكَ۔ (بدائع الصنائع : ٥/١٢٦)

شرط صحتہ أي الوضوء زوال ما یمنع وصول الماء إلی الجسد کشمع شحم۔ (مراقي الفلاح مع الطحطاوي : ۶۲)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
25 ذی الحجہ 1442

2 تبصرے: