ہفتہ، 28 اگست، 2021

بغل اور زیر ناف بال بنانے کا حکم اور اس کی حدود؟

سوال :

کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے کہ بغل اور زیر ناف بال بنانے کا کیا حکم ہے؟ اور اس کی حد کیا ہے؟ برائے مہربانی آسان الفاظ میں بیان فرمائیں۔
(المستفتی : محمد مصدق، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : بغل اور ناف کے نیچے کے بالوں کو صاف کرنا ایک فطری عمل ہے جو شریعت مطہرہ میں سنت قرار دیا گیا ہے۔ ہر ہفتہ ان بالوں کی صفائی کرلینا مستحب ہے، اور چالیس دن سے زائد چھوڑے رکھنا اور نہ کاٹنا مکروہِ تحریمی اور گناہ کا کام ہے۔

بغل کے بالوں کو صاف کرنے میں عموماً کوئی کنفیوژن نہیں ہوتا۔ بلکہ ہر کوئی اسے آسانی سے صاف کرلیتا ہے۔ لہٰذا اس کی وضاحت کی ضرورت نہیں۔ البتہ زیر ناف بالوں کو صاف کرنے کے سلسلے میں سوالات ہوتے رہتے ہیں۔ ان بالوں کو صاف کرنے کی حد یہ ہے کہ اگر آدمی اکڑوں بیٹھے تو ناف سے تھوڑا نیچے، جہاں پیٹ میں بل پڑتا ہے وہاں سے رانوں کی جڑوں تک اگنے والے بال، مخصوص عضو (آلہ تناسل) اور اس کے ارد گرد کے حصے كے بال، اور خصیتین (فوطہ) کے بال اور پاخانے کے خارج ہونے کی جگہ اور اس کے ارد گرد کے بال زیرِ ناف بالوں میں داخل ہیں، مزید آسان الفاظ میں کہا جائے تو اکڑوں بیٹھے کی صورت میں پیٹ کے ختم پر جو بل اور لکیر ہوتی ہے اسی طرح رانوں کے ختم پر جو لکیر ہوتی ہے جس کی وجہ یہ حصہ مخروطی اور سموسے کی شکل میں بن جاتا ہے، لہٰذا اس پورے حصے کے بالوں کو نیز پاخانہ نکلنے کی جگہ پر بال ہوں تو اسے بھی صاف کیا جائے گا۔

عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال : خمس من الفطرة : الختان، والاستحداد، وتقليم الأظفار، ونتف الإبط، وقص الشارب۔ (مصنف ابن ابی شیبہ، رقم : ٢٠٥٩)

(والاستحداد) وهو حلق العانة، وهو متفق على أنه سنَّة۔ (بذل المجهود : ١٢/٢٢٣)

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ وُقِّتَ لَنَا فِي قَصِّ الشَّارِبِ وَحَلْقِ الْعَانَةِ وَنَتْفِ الْإِبِطِ وَتَقْلِيمِ الْأَظْفَارِ أَنْ لَا نَتْرُکَ أَکْثَرَ مِنْ أَرْبَعِينَ لَيْلَةً۔ (ابن ماجہ، رقم : ٢٩٥)

قَالَ فِي الْقُنْيَةِ: الْأَفْضَلُ أَنْ يُقَلِّمَ أَظْفَارَهُ وَيَقُصَّ شَارِبَهُ وَيَحْلِقَ عَانَتَهُ وَيُنَظِّفَ بَدَنَهُ بِالِاغْتِسَالِ فِي كُلِّ أُسْبُوعٍ، وَإِلَّا فَفِي كُلِّ خَمْسَةَ عَشَرَ يَوْمًا، وَلَا عُذْرَ فِي تَرْكِهِ وَرَاءَ الْأَرْبَعِينَ وَيَسْتَحِقُّ الْوَعِيدَ فَالْأَوَّلُ أَفْضَلُ وَالثَّانِي الْأَوْسَطُ وَالْأَرْبَعُونَ الْأَبْعَدُ۔ (شامی : ٢/١٨١)

وَالْعَانَةُ الشَّعْرِ الْقَرِيبِ مِنْ فَرْجِ الرَّجُلِ وَالْمَرْأَةِ وَمِثْلُهَا شَعْرُ الدُّبُرِ بَلْ هُوَ أَوْلَى بِالْإِزَالَةِ لِئَلَّا يَتَعَلَّقَ بِهِ شَيْءٌ مِنْ الْخَارِجِ عِنْدَ الِاسْتِنْجَاءِ بِالْحَجَرِ۔ (شامی : ٢/٤٨١)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
18 محرم الحرام 1443

6 تبصرے:

  1. آپکا شکریہ جزاك اللهُ‎

    جواب دیںحذف کریں
  2. مفتی صاحب پاخانے کی جگہ کے اطراف میں جو بال ہوتے ہیں ان کو تو صاف کرتے مگر ڈر یہ ہے کہ بواسیر والے کو بلیڈ سے زخم لگ جاتا ہے ۔اس کی کیا صورت ہوگی اسے بھی بتلا دیجئے ۔ نوازش ہوگی ۔

    جواب دیںحذف کریں
  3. بہت اچھا اور آسان انداز میں بہترین جواب

    جواب دیںحذف کریں