جمعرات، 19 اگست، 2021

کیا حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے غم میں رونا سنت ہے؟

سوال :

کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے کہ ایک واعظ نے اپنی تقریر میں کہا ہے کہ غم حسین میں رونا بھی سنت ہے، آپ کو جب حضرت حسین رضی اللہ کی شہادت کی پیشین گوئی سنائی گئی تو آپ ہل ہل کر، بلک بلک کر، سسک سسک کر روئے تھے، کیا یہ باتیں درست ہے؟ براہ کرم رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : محمد اشفاق، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : سوال نامہ میں جس روایت کے حوالہ سے یہ باتیں کہی گئی ہیں پہلے وہ مکمل روایت ملاحظہ فرما لیں :

حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے گھر کی عورتوں سے فرمایا کہ اس بچہ یعنی حسین کو  مت رلانا، اس دن حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی باری تھی (یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے گھر پر قیام فرما تھے) حضرت جبرئیل علیہ السلام نازل ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر کے اندر تشریف لے گئے اور حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا کہ کسی کو اندر مت آنے دینا، اتنے میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ آئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گھر کے اندر دیکھ کر اندر جانا چاہا تو حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے  ان کواٹھا لیا  (تو وہ رونے لگے) تو ان گود میں لے کر بہلانا اور غصہ ٹھنڈا کرنا چاہا، جب حضرت حسین رضی اللہ کا رونا بڑھ گیا تو حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے ان کو چھوڑ دیا تو  وہ اندر داخل ہوئے اور جاکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی گود میں بیٹھ گئے، حضرت جبریل علیہ السلام نے فرمایا کہ آپ کی امت عنقریب آپ کے اس بیٹے کو قتل کردے گی، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا وہ مجھ پر ایمان رکھنے کے باوجود اسے قتل کردیں گے؟  حضرت جبریل نے فرمایا کہ ہاں وہ اسے قتل کردیں گے، حضرت جبریل نے مٹی لا کر دکھائی کہ فلاں جگہ قتل کردیں گے، (یہ سن کر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت حسین کو سینہ سے لگا کر بدحال وغمگین ہو کر باہر تشریف لائے، حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے یہ گمان کیا کہ بچہ کے اندر جانے سے  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم غصہ ہوگئے ہیں،  انہوں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے نبی میں آپ پر قربان جاؤں  آپ نے ہم سے یہ فرمایا تھا کہ اس بچہ کو مت رلانا  اور مجھے یہ حکم فرمایا کہ میں اسے اندر داخل ہونے نہ دوں، جب یہ آیا تو میں اسے اندر جانے دیا (یعنی جب رونے لگا تو آپ کے پہلے والے ارشاد کہ اسے مت رلانا کے پیش نظر) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو کوئی جواب نہیں دیا اور اپنے صحابہ کے پاس تشریف لائے جو (باہر) بیٹھے ہوئے تھے اور ان سے فرمایا کہ میری امت کے لوگ  اسے قتل کرڈالیں گے، لوگوں میں حضرت ابو بکر وعمر رضی اللہ عنہما بھی تشریف فرما تھے  اور وہ دونوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتگو کرنے میں باقی لوگوں کی بنسبت باہمت تھے، ان دونوں نے کہا کہ اے اللہ کے نبی کیا وہ اسے قتل کرڈالیں گے جب کہ وہ ایمان والے ہوں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں، اور فرمایا کہ یہ وہ مٹی ہے جس میں اسے شہید کیا جائے گا  پس انہیں وہ مٹی دکھائی۔ (١)

اب آپ خود غور کریں کہ اس روایت میں کہیں بھی اس بات کا تذکرہ نہیں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم ہل ہل کر، بلک بلک کر، سسک سسک کر اور زور زور سے روئے تھے، البتہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت جبریل نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کی پیشین گوئی دی تو بشری تقاضہ اور اس انتہائی درجہ کی محبت کے تحت جو آپ کو حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے تھی آپ کی آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے، اور آپ کا چہرہ غمزدہ ہوگیا۔

ایسا بالکل بھی نہیں ہوسکتا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم قرآن کریم کے واضح حکم کے خلاف عمل کریں، کیونکہ ایسے مواقع پر قرآن کریم میں ایمان والوں کو نماز اور صبر سے مدد حاصل کرنے کی تلقین کی گئی ہے، اور یہ فرمایا گیا ہے کہ ایمان والوں پر جب کوئی مصیبت وپریشانی آتی ہے تو وہ "انا لله وانا الیہ راجعون" پڑھتے ہیں، خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے مواقع پر امت کو آواز کے ساتھ رونے، چینخنے چلانے، شکوہ شکایت کرنے اور بے صبری کا مظاہرہ کرنے سے منع فرمایا ہے۔ ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ شدت غم کی وجہ سے آنکھوں سے آنسو چھلک پڑیں جو بلاشبہ ایک فطری عمل ہے۔

زاد المعاد میں ہے :
نبی کریم صلی اللہ  کی سنت یہ ہے کہ اللہ تعالی کے فیصلوں پر سکون کے ساتھ راضی رہا کرتے تھے، اللہ کی حمد وثنا بیان کرتے اور غم کے وقت "انا لله وانا الیہ راجعون" پڑھا کرتے تھے اور مصیبت کے باعث کپڑے پھاڑنے والوں، بلند آواز سے بین اور نوحہ و ماتم کرنے والوں اور بال منڈانے والوں سے  بیزاری کا اظہار کرتے تھے۔

درج بالا تفصیلات سے یہ بات تو ثابت ہوگئی کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے رونے کی کیفیت سے متعلق واعظ نے جو بات کہی ہے وہ بالکل غلط ہے۔ اسی طرح ان کا یہ کہنا کہ غم حسین میں رونا بھی سنت ہے، شریعت کے اصولوں کے بالکل خلاف ہے، اسے درج ذیل مثال کے ذریعے واضح طور پر سمجھا جاسکتا ہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے کھڑے ہوکر  جو  پانی  پینا ثابت ہے، وہ بیانِ جواز کے لیے ہے، بالکل اسی طرح جیسے آپ کی عادت مستمرہ چھوٹا استنجاء بیٹھ کر کرنے تھی، لیکن آپ نے ایک مرتبہ بیان جواز کے لیے ضرورۃً کھڑے ہوکر چھوٹا استنجاء فرمایا۔ لہٰذا یہ اعمال عذر کے موقع پر جائز تو کہلائیں گے لیکن انہیں سنت کہنا درست نہیں۔ اس لئے کہ سنت اسے کہا جاتا ہے جو طریقہ دین میں رائج ہو، الطریقۃ مسلوکۃ فی الدین" اور پینے کے سلسلہ میں جو طریقہ رائج ہے اور جو تعلیماتِ نبوی ہیں وہ بیٹھ کر پینے کی ہیں۔

معلوم ہوا کہ شہادت کی پیشین گوئی سننے کے بعد فطری طور پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو اگر رونا آگیا تو اسے سنت بالکل بھی نہیں کہا جائے گا۔ اگر یہ عمل سنت ہوتا تو اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ غم کتنی مرتبہ منایا؟ کتنی بار اس کی ترغیب دی؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی سنتوں کے عاشق حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کتنی مرتبہ منایا؟ بالخصوص وہ صحابہ جو حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد بھی تقریباً پچاس سال تک حیات رہے تو ان میں سے کتنے صحابہ نے غم منایا اور کتنے سال منایا؟ پھر ان کے بعد تابعین اور تبع تابعین، ائمہ مجتہدین نے کب منایا اور کب اس کو سنت قرار دیا؟ کیا یہ حدیث اور اس عمل کا سنت ہونا چودہ سو سال سے کسی بھی صحابی، فقیہ اور عالم پر واضح نہیں ہوسکا؟

خلاصہ یہ کہ سوال نامہ میں مذکور واعظ کی تمام باتیں اصل واقعہ، شریعت مطہرہ کے اصولوں اور اہل سنت والجماعت کے موقف کے بالکل خلاف ہیں، یہ ان کی اپنی ایجاد ہے، لہٰذا انہیں اپنی باتوں سے رجوع کرنا چاہیے۔

١) حدثنا علي بن سعيد الرازي ثنا إسماعيل بن إبراهيم بن المغيرة المروزي ثنا بن الحسن بن شفيق ثنا الحسين بن واقد حدثني أبو غالب عن أبي أمامة قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم لنسائه : لا تبكوا هذا الصبي يعني حسينا قال : وكان يوم أم سلمة فنزل جبريل عليه السلام فدخل رسول الله صلى الله عليه و سلم الداخل وقال لأم سلمة : لا تدعي أحدا يدخل فجاء الحسين رضي الله عنه فلما نظر إلى النبي صلى الله عليه و سلم في البيت أراد أن يدخل فأخذته أم سلمة فاحتضنته وجعلت تناغيه وتسكنه فلما اشتد البكاء خلت عنه فدخل حتى جلس في حجر النبي صلى الله عليه و سلم فقال جبريل عليه السلام : إن أمتك ستقتل ابنك هذا فقال النبي صلى الله عليه و سلم يقتلونه وهم مؤمنون بي ؟ قال : نعم يقتلونه فتناول جبريل تربة فقال : بمكان كذا وكذا فخرج رسول الله صلى الله عليه و سلم فقد احتضن حسينا كاسف البال مهموما فظنت أم سلمة أنه غضب من دخول الصبي عليه فقالت : يا نبي الله جعلت لك الفداء إنك قلت لنا : لا تبكوا هذا الصبي وأمرتني أن لا أدع يدخل عليك فجاء فخليت عنه فلم يرد عليها فخرج إلى أصحابه وهم جلوس فقال لهم : إن أمتي يقتلون هذا وفي القوم أبو بكر و عمر رضي الله عنهما وكانا أجرأ القوم عليه فقالا : يا نبي الله يقتلونه وهم مؤمنون ؟ قال : نعم وهذه تربته وأراهم إياها۔ (قال الهيثمي في مجمع الزوائد ومنبع الفوائد : 9/ 120: رقم : 8096 رواه الطبراني بأسانيد ورجال أحدها ثقات)

كان من هديه صلى الله عليه وسلم : السكونُ والرضى بقضاء الله، والحمد للّه، والاسترجاع، ويبرأ ممن خرق لأجل المُصيبة ثيابَه، أو رفع صوتَه بالندب والنياحة، أو حلق لها شعره۔ (زاد المعاد في هدي خير العباد :1/ 527)

السنۃ ہي الطریقۃ المسلوکۃ الجاریۃ في الدین الماثورۃ عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أو صحبہ۔ (الموسوعۃ الفقہیۃ : ۸؍۲۵)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
09 محرم الحرام 1443

1 تبصرہ:

  1. ماشاءاللہ ! اللہ تعالیٰ بہترین بدلہ عطا فرمائے

    جواب دیںحذف کریں