پیر، 9 اگست، 2021

قرآن و حدیث میں مرتد کی سزا

سوال :

مفتی صاحب! مرتد کی سزا موت، کیا یہ احکام قرآنی ہے؟ کیا قرآن کی کسی آیت یا حدیث سے اس سزا کی دلیل مل سکتی ہے؟ رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : ڈاکٹر سید محسن اشرفی، کلمنوری، مہاراشٹر)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : اگر کوئی مسلمان العیاذباللہ دینِ اسلام سے نکل کر مرتد ہوجائے اور کفر میں داخل ہوجائے تو اگر مرتد شخص مرد ہو تو تین دن تک اسے مہلت دی جائے، اور اس دوران اس کے شکوک وشبہات دور کیے جائیں، اگر اس کے شکوک وشبہات دور ہوجائیں اور دوبارہ اسلام قبول کرلے تو  وہ دیگر مسلمانوں کی طرح ہوگا۔ اور اگر شکوک وشبہات دور کرنے کے باوجود نہ مانے اور واپس اسلام میں داخل نہ ہو تو شرعاً ایسے مرتد مرد کی سزا قتل ہے، جسے نافذ کرنے کا اختیار اسلامی حکومت کو ہے۔ قرآن و سنت، اجماع امت اور فقہائے امت کا یہی فیصلہ ہے، اور عقل و دیانت کا بھی یہی تقاضا ہے۔

قرآنِ کریم میں ہے :

إِنَّمَا جَزَاءُ الَّذِينَ يُحَارِبُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَسَادًا أَنْ يُقَتَّلُوا أَوْ يُصَلَّبُوا أَوْ تُقَطَّعَ أَيْدِيهِمْ وَأَرْجُلُهُمْ مِنْ خِلَافٍ أَوْ يُنْفَوْا مِنَ الْأَرْضِ ذَلِكَ لَهُمْ خِزْيٌ فِي الدُّنْيَا وَلَهُمْ فِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ۔ إِلَّا الَّذِينَ تَابُوا مِنْ قَبْلِ أَنْ تَقْدِرُوا عَلَيْهِمْ فَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ۔ (سورۃ المائدة : ۳۳-۳۴)

ترجمہ : یہی سزا ہے ان کی جو لڑائی کرتے ہیں اللہ سے اور اس کے رسول سے اور دوڑتے ہیں ملک میں فساد کرنے کو، کہ ان کو قتل کیا جائے یا سولی چڑھائے جائیں یا کاٹے جائیں ان کے ہاتھ اور پاؤں مخالف جانب سے، یا دور کردیے جائیں اس جگہ سے، یہ ان کی رسوائی ہے دنیا میں اوران کے لیے آخرت میں بڑا عذاب ہے، مگر جنہوں نے توبہ کی تمہارے قابو پانے سے پہلے تو جان لو کہ اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔

اس آیت کے ذیل میں تمام مفسرین و محدثین نے ’’عکل وعرینہ‘‘  کے ان لوگوں کا واقعہ لکھاہے جو اسلام لائے تھے، مگر مدینہ منورہ  کی آب و ہوا ان کو راس نہ آئی تو ان کی شکایت پر آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو صدقہ کے اونٹوں کے ساتھ بھیج دیا، جہاں وہ ان کا دودھ وغیرہ پیتے رہے، جب وہ ٹھیک ہوگئے تو مرتد ہوگئے اور اونٹوں کے چرواہے کو قتل کرکے صدقہ کے اونٹ بھگا لے گئے، جب مسلمانوں نے ان کو گرفتار کرلیا اور آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لائے گئے تو  آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سیدھے ہاتھ اور اُلٹے پاؤں کاٹ دیے، اور وہ حرہ (گرم پتھریلی زمین) میں ڈال دیے گئے، پانی مانگتے رہے، مگر ان کو پانی تک نہ دیا، یہاں تک کہ وہ تڑپ تڑپ کر مرگئے۔ راوی حدیث ابوقلابہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "«فهؤلاء سرقوا وقتلوا، وكفروا بعد إيمانهم، وحاربوا الله ورسوله»".یعنی ان لوگوں نے چوری بھی کی، قتل بھی کیا اور ایمان لانے کے بعد کفر اختیار کیا اور اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے مقابلہ کیا، اس جرم کی پاداش میں انہیں یہ سزا دی گئی۔

حدیث شریف میں ہے :

١) حضرت عکرمۃؒ فرماتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس کچھ زندیق لائے گئے، جن کو آپؓ نے آگ میں جلا دیا، حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کو جب یہ خبر پہنچی تو فرمانے لگے : اگر میں ہوتا تو انہیں آگ میں نہ جلاتا، اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے عذاب کی مانند عذاب دینے سے منع فرمایا ہے۔ ہاں! میں انہیں قتل کر دیتا، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: جو اپنا دین بدل دے اسے قتل کر دو۔ (صحیح بخاری، رقم : ٣٠١٧)

٢) حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کو یمن کا گورنر بنا کر بھیجا، ان کے پیچھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو بھی بھیج دیا، جب وہ پہنچے تو حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے ان کی طرف تکیہ بڑھایا اور فرمایا تشریف رکھیں، حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے اچانک دیکھا کہ ایک آدمی جکڑا ہوا ہے، پوچھا کیا ماجرا ہے؟ کہا یہ یہودی تھا پھر اسلام لایا، پھریہودی ہوگیا۔ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے فرمایا تشریف رکھئے، حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں اس وقت تک نہیں بیٹھوں گا جب تک اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ نافذ کرتے ہوئے اس مرتد کو قتل نہ کر دیا جائے، یہ جملہ تین بار دُھرایا، چنانچہ اسے قتل کیا گیا، تب آپ رضی اللہ عنہ بیٹھے۔ (صحیح بخاری، رقم : ٦٩٢٣)

٣) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : کیا تمہیں معلوم نہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کسی مسلمان کا خون حلال نہیں سوائے اس کے کہ شادی شدہ ہو کر زنا کرے یا اسلام کے بعد کفر اختیار کرے یا ناحق کسی کی جان لے۔ (صحیح مسلم، رقم : ١٦٧٦)

اور اگر ارتداد اختیار کرنے والی عورت ہے تو پہلے اس کے بھی شکوک وشبہات دور کیے جائیں، اگر اسلام کی طرف لوٹ آئے تو بہتر، بصورتِ دیگر اسے تاحیات قید میں رکھاجائے، الا یہ کہ جب وہ توبہ کرلے تو اسے رہا کردیا جائے۔ (تفصیلی دلائل  کے لیے دیکھیے : جواہرالفقہ ،جلد ششم، رسالہ :مرتد کی سزا اسلام میں)

عن أنس بن مالك، قال : قدم أناس من عكل أو عرينة، فاجتووا المدينة، «فأمرهم النبي صلى الله عليه وسلم، بلقاح، وأن يشربوا من أبوالها وألبانها»، فانطلقوا، فلما صحوا، قتلوا راعي النبي صلى الله عليه وسلم، واستاقوا النعم، فجاء الخبر في أول النهار، فبعث في آثارهم، فلما ارتفع النهار جيء بهم، «فأمر فقطع أيديهم وأرجلهم، وسمرت أعينهم، وألقوا في الحرة، يستسقون فلايسقون». قال أبو قلابة: «فهؤلاء سرقوا وقتلوا، وكفروا بعد إيمانهم، وحاربوا الله ورسوله»". (صحيح البخاري. 1 / 56، رقم الحدیث : 233، 1501، 4192)
مستفاد : دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن
فتوی نمبر: 144103200613)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
29 ذی الحجہ 1442

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں